گذشتہ سال کے دوران اس ٹیکنالوجی کمپنی کے حیرت انگیز نتائج کو دیکھتے ہوئے امکان یہی ہے کہ واقعی یہ وہ احساس ہے جو کمپنی اور اس کے بانی دونوں اپنے حریفوں میں بیدار کرتے ہوں گے۔
مارچ 2023 اور مارچ 2024 کے درمیان اینویڈیا کے حصص کی قیمت 264 امریکی ڈالر سے 886 امریکی ڈالر تک بڑھ گئی، جس سے اس کی کل قیمت دو کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ ہوگئی ہے۔
اور یہ الفابیٹ (گوگل)، ایمازون اور میٹا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی تیسری سب سے بڑی عوامی کمپنی بن گئی ہے۔
اب صرف مائیکروسافٹ اور ایپل فہرست میں اس سے آگے ہیں۔
اینویڈیا کی قدر میں تیزی سے اضافے کی وضاحت مصنوعی ذہانت اور اس حقیقت سے ہوتی ہے کہ یہ 70 فیصد سے زیادہ چپس فراہم کرنے والی کمپنی ہے جو اس ٹیکنالوجی کو ممکن بناتی ہے۔
لیکن اگراس کے بانی جینسن ہوانگ کا وژن نہ ہوتا تو یہ ٹیکلنالوجی سرے سے ہی نہ ہوتی۔
انھوں نے اُس وقت اس مارکیٹ کا انتخاب کیا جب اس کا وجود بھی نہیں تھا اور اسے حقیقت میں بدلنے میں انھوں نے اپنا حصہ ڈالا۔
جیسا کہ وائرڈ میگزین نے حال ہی میں لکھا، آج ہوانگ کو ’گھنٹہ، سال اور شاید دہائی کا آدمی‘ سمجھا جاتا ہے۔
جبکہ امریکی نیٹ ورک سی این بی سی کے سرمایہ کاری کے تجزیہ کار جم کرمر نے کہا ہے کہ اینویڈیا کے بانی نے ایلون مسک کو مستقبل کی بصیرت کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
ہوانگ کی کہانی مشکلات، خطرات اور سخت محنت سے خالی نہیں رہی۔ اس کہانی میں بیت الخلا دھونے اور ویٹر کے طور پر کئی کھنٹوں تک مشقت کرنا بھی شامل ہے۔
ریفارمیٹری میں ایک تارک وطن بچہ سنہ 1963 میں تائیوان کے دارالحکومت تائی پے میں پیدا ہوئے۔
ہوانگ نے اپنے بچپن کا کچھ حصہ تائیوان اور تھائی لینڈ میں گزارا پھر ایک وقت آیا جب ان کے والدین نے انھیں اور ان کے بھائی کو امریکہ بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
ان دونوں بھائیوں کو انگریزی نہیں آتی تھی وہ اپنے ماموؤں کے ساتھ رہنے لگے، وہ بھی حال ہی میں اس ملک میں آئے تھے۔
انھیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ریاست کینٹکی کہ اونیڈا بیپٹسٹ انسٹیٹیوٹ میں پڑھنے کے لیے بھیجا گیا یہ جگہ سکول سے زیادہ ایک اصلاحی مرکز سے ملتی جلتی تھی۔
سنہ 2016 میں اس سکول کی طرف سے شائع ہونے والے ایک نیوز لیٹر کے مطابق جب وہ اونیڈا ایلیمنٹری سکول میں پڑھتے تھے تو اس وقت دونوں بھائیوں کو اس ادارے میں رہنے، کھانے اور کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
کم عمر جینسن کا کام بیت الخلاء کو دھونا تھا۔
انھوں نے 2012 میں این پی آر کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا ’بچے واقعی بہت سخت تھے۔ ان سب کے پاس جیب میں چاقو تھے اور جب لڑائی ہوتی تھی تو منظر اچھا نہیں ہوتا تھا۔ بچے زخمی ہوتے تھے۔‘
مشکلات کے باوجود ہوانگ کا ہمیشہ سے یہ مؤقف برقرار رہا ہے کہ یہ ایک بہترین تجربہ تھا اور انھوں نے وہاں اپنے وقت کا لطف اٹھایا۔
2016 میں ہوانگ اور ان کی بیگم لوری نے اس تعلیمی مرکز میں لڑکیوں کی کلاسوں اور ہاسٹل کی عمارت کی تعمیر کے لیے 20 لاکھ ڈالر عطیہ کیے تھے۔
کچھ عرصے بعد جب ان کے والدین امریکہ پہنچے تو یہ دونوں لڑکے ان کے ساتھ رہنے کے لیے ریاست اوریگون چلے گئے۔
ہوانگ نے اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجنیئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہی جگہ ہے جہاں وہ کمپیوٹر کے ’جادو‘ سے آشنا ہوئے اور جہاں ’قسمت‘ نے انھیں اپنی بیوی لوری سے ملایا جو ان کی لیب پارٹنر تھیں۔
80 طالبہ کی کلاس میں یہ تین لڑکیوں میں سے ایک تھیں۔
سنہ 2013 میں اس یونیورسٹی میں طالب علموں سے ایک گفتگو میں ہوانگ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح ان کی ملاقات اتفاقاً اینویڈا کے دو شریک بانیوں کرس میلاچوسکی اور کرٹیز پریم سے ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا ’میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ کامیابی کے لیے اتفاقاً ہونے والی چیزیں بہت اہم ہے۔‘
اینویڈا کے تینوں شریک بانیوں کو کمپنی بنانے کا خیال سان ہوزے (کیلیفورنیا) میں ڈینی کی فاسٹ فوڈ چین میں ناشتے کے دوران آیا۔
2023 کے بعد پہلی بار اس ٹیکنالوجی کمپنی کو ایک ارب ڈالر والی کمپنیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اس موقع پر وہاں ایک تختی رکھی گئی تھی جو اس حقیقت کی یاد دلاتی ہے۔
ڈینی کے ساتھ ہوانگ کا رشتہ پرانا ہے۔ 15 سال کی عمر میں پورٹلینڈ میں اسی چین کی ایک سٹور میں ہوانگ کو اپنی پہلی نوکری ملی تھی۔ وہ وہاں برتن دھوتے، میز صاف کرتے اور ویٹر کا کام کرتے تھے۔
ہوانگ کہتے ہیں ’ملازمت کا بہترین انتخاب ہے۔ میں ہر کسی کو ریسٹورانٹ میں پہلی نوکری کرنے کی صلاح دیتا ہوں یہ عاجزی اور محنت سکھاتی ہے۔‘
وہ اکثر اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ ڈینی میں ان کاموں میں کتنے اچھے تھے۔
انھوں نے حال ہی میں سٹینفورڈ گریجویٹ سکول آف بزنس میں ایک گفتگو میں کہا کہ ’سی ای او بننے سے پہلے میرا پہلا کام برتن دھونا تھا اور میں نے اسے بہت اچھے طریقے سے انجام دیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ڈینی میں کام کرنے سے وہ اپنے شرمیلے پن پر قابو پا سکے۔
ہوانگ نے 1984 میں انجینیئر کے طور پر گریجویشن کی۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ سال ’گریجویٹ کرنے کے لیے ایک بہترین سال تھا‘ کیونکہ یہ وہی سال تھا جب پرسنل کمپیوٹرز کا دور پہلے میک کے اجراء کے ساتھ شروع ہوا۔
اس کے بعد انھوں نے سٹینفورڈ یونیورسٹی میں الیکٹریکل انجینئرنگ میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی جس کو مکمل کرنے میں انھیں آٹھ سال لگے۔
اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ وہ ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے ایڈوانسڈ مائیکرو ڈیوائسز (AMD) اور ایل ایس آئی لاجک میں مختلف حیثیتوں میں کام کر رہے تھے۔ جنھیں انھوں نے اینویڈا کی بنیاد رکھنے سے کچھ عرصہ پہلے چھوڑ دیا تھا۔
انھوں نے 2013 میں اوریگون سٹیٹ یونیورسٹی میں کی گئی گفتگو میں کہا کہ اس کمپنی کو بنانے سے پہلے تینوں بانیوں نے اپنے آپ سے تین سوالات پوچھے: کیا یہ کام ایسی چیز ہے جسے ہم ’واقعی پسند کریں گے؟، کیا یہ کام کرنے کے قابل ہے؟ اور کیا یہ کام کرنا ’واقعی مشکل‘ ہے؟‘
انھوں نے کہا ’آج میں ہر وقت خود سے وہی تین سوالات پوچھتا ہوں۔ کیونکہ آپ کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے جس سے آپ محبت نہیں کرتے اور آپ کو اپنی زندگی میں صرف ان چیزوں پر کام کرنا چاہیے جو اہم ہیں۔‘
ان کے کام کے فلسفے کا ایک حصہ یہی ہے کہ یہ اہم چیزیں تب بھی کی جائیں جب ان کی کوئی واضح مارکیٹ نہیں ہے۔
انھوں نے سٹینفورڈ گریجویٹ سکول آف بزنس میں کہا ’ہمیں مارکیٹ کے سائز میں نہیں بلکہ کام کی اہمیت سے حوصلہ ملتا ہے، کیونکہ کام کی اہمیت مستقبل کی مارکیٹ کا ابتدائی اشارہ ہے۔‘
وہاں انھوں نے مستقل طور پر بنیادی اصولوں کی طرف لوٹنے کا بھی مشورہ دیا، انھوں نے یقین دلایا یہ وہ چیز ہے جو بہت سے مواقع پیدا کرتی ہے۔
اینویڈیا نے مارکیٹ میں اپنی ابتدائی کامیابیاں گرافک چپس کی بدولت حاصل کی جس نے ویڈیو گیمز کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا
اس طرز کے خیالات کو لاگو کرتے ہوئے ہوانگ نے متوازن کمپنی بنائی ہے جس میں نہ صرف 40 سے زیادہ لوگ ہیں جو انھیں براہ راست رپورٹ کرتے بلکہ جس میں وہ دو طرفہ رابطے سے کمپنی کے ہر چھوٹے بڑے کی حوصلہ افزائی بھی کرتے۔
جیسا کہ انھوں نے وضاحت کی کہ یہ خیالات اور معلومات کے بہاؤ کو آسان بنانے کے لیے اور اپنی ٹیم کے بہترین خیالات کے ساتھ باخبر رہنے کا بھی ایک طریقہ ہے۔
انھوں نے سٹینفورڈ میں اپنی گفتگو میں مزید کہا ’لوگوں کو عظیم چیزوں کے حصول کے لیے رہنمائی کرنا، دوسروں کو متاثر کرنا، بااختیار بنانا اور ان کی مدد کرنا، یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ایک بہترین ٹیم وجود میں آتی ہے اور جو کمپنی میں کام کرنے والے ہر فرد کی خدمت کرتی ہے‘
اور اینویڈیا کے نتائج کو دیکھیں تو یہ ایک فلسفہ ہے جو کام کرتا ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ کمپنی پر کبھی برا وقت نہیں آیا۔
ان میں سے پہلا واقعہ بہت جلد پیش آیا جب اپنے پہلے دو سالوں کے دوران ڈی آر اے ایم میموری کی بلند قیمت پر قابو پانے کے لیے تکنیکی حل تلاش کرنے کے بعد اس کی قیمت 90 فیصد گر گئی۔
اس نے سرمایہ کاری کی کوشش کو بیکار بنا دیا اور درجنوں دیگر کمپنیوں کے لیے بہترین گرافکس چپس تیار کرنے کی دوڑ میں حصہ لینے کے دروازے کھول دیے۔
اینویڈیا اپنی کوششوں کو نئی راہ دینے میں کامیاب رہی اور 1999 میں گرافکس پروسیسنگ یونٹ (GPU) کا آغاز کیا، ایک قسم کا مائیکرو پروسیسر جس نے کمپیوٹر گیمز کو نئی شکل دی۔
وہاں سے کمپنی نے GPU- ایکسلریٹڈ کمپیوٹنگ کی ترقی پر کام جاری رکھا۔ یہ ایک ایسا کمپیوٹنگ ماڈل ہے جو متوازی گرافکس پروسیسرز کو بڑے پیمانے پر استعمال کرتا ہے اور یہ ایسے پروگراموں کے کام کو تیز کرتا ہے جن کے لیے بڑی کمپیوٹیشنل طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسا کہ تجزیہ، ڈیٹا، سمیولیشن، ویژولائزیشن اور مصنوعی ذہانت۔
اینویڈا کے حصص کی قیمتوں نے آسمان چھو لیا ہے اور ان کے ساتھ ہوانگ کی ذاتی دولت 79 ارب امریکی ڈالر تک پہنچ گئی ہے اور فوربز میگزین کے مطابق اس نے انھیں دنیا کا 18 واں امیر ترین آدمی بنا دیا ہے۔
اور یہ ان سپر چپس کی تیاری کے ساتھ اینویڈیا کی نیم اجارہ داری کی پوزیشن کی بدولت اور بھی آگے بڑھ سکتی ہے جن کی مانگ مستقبل قریب میں صرف بڑھنے کی امید ہے۔
جیسا کہ نیویارکر میگزین کے حوالے سے وال سٹریٹ کے تجزیہ کار نے لکھا ہے ’مصنوعی ذہانت کے میدان میں جنگ جاری ہے اور اینویڈیا واحد آلات بیچنے والا ہے۔‘
ایسا لگتا ہے کہ جینسن ہوانگ پر قسمت کی دیوی مہربان ہوتی جائے گی۔