ہوم Pakistan آئینی ترمیم کی ممکنہ منظوری؛ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس جمعرات...

آئینی ترمیم کی ممکنہ منظوری؛ پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس جمعرات کو طلب

0


  • قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو چار بجے جب کہ سینیٹ اجلاس تین بجے شروع ہوں گے۔
  • دونوں ایوانوں کے اجلاس میں آئینی ترمیم کا مسودہ پیش ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
  • مبصرین کے مطابق حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت درکار ہے۔
  • ذرائع کے مطابق حکومتی جماعتوں کی مولانا فضل الرحمان سے بات چیت آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔
  • مولانا فضل الرحمان کی حمایت کے بعد بھی حکومت کو دونوں ایوانوں میں مزید ووٹ درکار ہوں گے۔

صدر آصف علی زرداری نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے علیحدہ علیحدہ اجلاس جمعرات کو طلب کر لیے ہیں۔

قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو چار بجے جب کہ سینیٹ اجلاس تین بجے شروع ہوں گے۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے ایم بی سومرو نے وزارتِ پارلیمانی امور کے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ صدر نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی منظوری کے بعد اجلاس طلب کیے ہیں اور ممکنہ طور پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کے اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری لی جائے گی۔

مبصرین کے مطابق حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے دونوں ایوانوں میں دوتہائی اکثریت درکار ہے۔ حکومت کو قومی اسمبلی میں 224 ارکان جب کہ سینیٹ میں 64 ارکان کے ووٹ درکار ہوں گے۔

اس وقت حکمران اتحاد کے قومی اسمبلی میں مجموعی طور پر 215 جب کہ سینیٹ میں 55 اراکین ہیں۔

حکومتی ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے حکومتی جماعتوں کے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے بات چیت آخری مراحل میں داخل ہو گئی ہے۔

بدھ کو لاہور میں جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات میں معاملات طے پانے کا امکان ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جے یو آئی (ف) کی آئینی ترمیم کی حمایت کی صورت میں حکمران اتحاد کو کچھ ووٹ تو ضرور مل جائیں گے۔ اس کے بعد حکومتی جماعتیں پارلیمان میں اپنے اراکین کے 100 فی صد ووٹ یقینی بنالیں تو بھی قومی اسمبلی میں چار اور سینیٹ میں ایک ووٹ کی کمی کا سامنا رہے گا۔

گزشتہ ماہ 16 ستمبر کو آئینی ترمیم منظور کرانے میں ناکامی کے بعد حکومتی اتحاد آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے سیاسی جماعتوں خاص طور پر جے یو آئی (ف)، سول سوسائٹی اور وکلا سے مسلسل رابطوں میں ہے۔

پیپلز پارٹی آئینی ترمیم کا اپنا ڈرافٹ جے یو آئی (ف) کو پیش کر چکی ہے جس کو عوام کے لیے بھی پیپلز پارٹی نے جاری کر دیا ہے۔

جے یو آئی نے بھی آئینی ترمیمی بل کا ڈرافٹ پیپلز پارٹی کو دے دیا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری یہ دعویٰ کر چکے ہیں کے حکومت کے پاس آئینی ترمیم کے لیے نمبرز پورے ہیں۔

گزشتہ ماہ 15 ستمبر کو حکومت نے مجوزہ آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس طلب کیے تھے۔ تاہم مسودے کی منظوری کے لیے درکار دو تہائی اکثریت نہ ہونے پر یہ معاملہ التوا کا شکار ہو گیا تھا۔

اس وقت آئینی مسودے میں وفاقی آئینی عدالت کے قیام، چیف جسٹس کی تقرری کا طریقہ تبدیل، آئینی عدالت کے ججز کی عمر 68 برس کرنے اور آرٹیکل 63 اے میں ترمیم سمیت دیگر ترامیم شامل تھیں۔

حکمراں اتحاد نے اپنے ارکانِ پارلیمنٹ کو 16 اکتوبر تک اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت کر دی تھی جب کہ یہ اطلاعات کئی دن پہلے آ رہی تھیں کہ آئینی ترمیمی بل کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کا اجلاس 17 اکتوبر تک بلانے پر غور ہو رہا ہے۔ کیوں کہ 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد میں شنگھائی تعاون تنطیم(ایس سی او) کا اجلاس طے تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئینی ترمیمی بل پر مشاورتی عمل جاری تھا۔ لیکن نمبر گیم پوری کرنے کے لیے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر بات ہو گی۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت 25 اکتوبر سے پہلے آئینی ترمیمی بل منظور کرا لے گی۔

واضح رہے کہ 25 اکتوبر کو ملک کی سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تبدیلی متوقع ہے۔

اس آئینی ترمیم میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کے تقرر،ان کی مدت ملازمت، آئینی امور سے متعلق عدالتی کردار سمیت دیگر معاملات شامل ہونے کا امکان ہے۔

ماہرین کے مطابق حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور حکومت میں شامل پیپلز پارٹی الگ آئینی عدالت کے قیام کے حامی ہیں جب کہ جمعیت علماء اسلام (ف) کی تجویز ہے کہ الگ عدالت کے بجائے سپریم کورٹ کے سینئر ججوں پر مشتمل بینچ آئینی معاملات سے متعلق کیس سنے۔



Source

کوئی تبصرہ نہیں

اپنی رائے کا اظہار کریں

براہ مہربانی اپنی رائے درج کریں!
اپنا نام یہاں درج کریں

Exit mobile version