|
عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور پاکستانی حکام کے درمیان عملے کی سطح پر معاہدہ طے پا گیا ہے جو فنڈ کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔
منظوری کے بعد پاکستان کو تقریباً 1.1 ارب امریکی ڈالر مل سکیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قسط کا اجرا اطمینان بخش تو ہے۔ لیکن نئے پروگرام پر مذاکرات شروع کرنے سے قبل حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جس سے فنڈ کو اندازہ ہو کہ موجودہ اصلاحاتی عمل کو جاری رکھا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کا مشن اسٹینڈ بائی ایگریمنٹ کے تحت دوسرے اور آخری جائزے کے لیے گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر تھا اور اس نے اپنا جائزہ مکمل کرنے کے بعد ملک کی اقتصادی اور مالیاتی پوزیشن پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔
فنڈ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق حالیہ مہینوں میں ترقی اور اعتماد کی بحالی کے ساتھ معیشت میں بہتری کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔
‘ترقی کی رفتار معمولی اور مہنگائی ہدف سے زیادہ رہے گی’
فنڈ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اس سال معاشی شرح نمو انتہائی معمولی رہنے کی توقع ہے اور افراطِ زر ہدف سے کافی زیادہ رہے گا۔ خیال رہے کہ گزشتہ سال پاکستان کی اقتصادی نمو کی شرح منفی رہی تھی اور اس سال کے واسطے حکومت نے معاشی نمو کے لیے 3.5 فی صد کا ہدف رکھا ہے۔
مرکزی بینک کے مطابق یہ شرح دو سے تین فی صد کے درمیان رہنے کی توقع ہے۔ مہنگائی کے حوالے سے حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں ہدف 21 فی صد رکھا تھا۔ لیکن فروری میں مہنگائی کی شرح 23 فی صد ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال حکومت نے افراطِ زر کا ہدف 11.5 فی صد رکھا تھا لیکن وہ 29 فی صد سے بھی زیادہ رہا۔
فنڈ حکام کے مطابق رواں مالی سال کے دوران بلند بیرونی اور مقامی مالیاتی ضروریات اور چیلنجز میں گھری معیشت کو بحال کرنے کے لیے اقتصادی کمزوریوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے جس کے لیے جاری پالیسی اور اصلاحاتی کوششوں کا تسلسل درکار ہے۔
فنڈ کے مطابق نئی حکومت ان پالیسی کوششوں کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس مقصد کے لیے حکام رواں مالی سال کے دوران حکومت کے بنیادی توازن کا ہدف یعنی پرائمری بیلنس 401 ارب روپے کے حصول کے لیے پرعزم دکھائی دیتے ہیں۔۔
اگلے پروگرام کے لیے فنڈ کی آمادگی کا اظہار
آئی ایم ایف حکام نے پاکستان کی مالی اور بیرونی پائیداری کی کمزوریوں کو مستقل طور پر حل کرنے پر زور دیا ہے۔
ادارے نے جامع ترقی کی بنیادیں رکھنے کے مقصد کے ساتھ نئے پروگرام میں بھی دلچسپی ظاہر کی۔ فنڈ کا کہنا ہے کہ آںے والے مہینوں میں اس پر بات چیت شروع ہونے کی توقع ہے۔
فنڈ کے خیال میں ملک میں بتدریج مالیاتی استحکام کے لیے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا ہو گا خاص طور پر کم ٹیکس والے شعبوں کو مکمل ٹیکس نیٹ میں لانا ضروری ہے جب کہ ٹیکس کے نظام اور انتظامیہ کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ قرض کی پائیداری کو بہتر بنایا جا سکے۔
حکومت محصولات میں اضافے سے معاشرے کے کمزور طبقات کی حفاظت کے لیے زیادہ اقدامات کرسکتی ہے جب کہ ترقی یاتی کاموں اور دیگر سماجی امداد کے اخراجات کے لیے بھی جگہ پیدا ہو پائے گی۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بنیادی طور پر آئی ایم ایف نے معیشت کو استحکام اور پائیدار بحالی کی طرف منتقل کرنے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے پالیسی اور اصلاحات کی کوششوں کو جاری رکھنے پر زور دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بھاری بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے فنڈ کے ساتھ ایک نیا پروگرام انتہائی اہم ہے جس کے بغیر پاکستان کے لیے مشکلات کافی بڑھ سکتی ہیں۔
پاکستان کو اگلے تین سال تک ہر سال کوئی 25 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں جبکہ اس کے علاوہ جاری اخراجات الگ ہونگے اور پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ 76 سال کے دوران صرف دو بار کے علاوہ ملک جاری اخراجات (کرنٹ اکاونٹ) میں خسارے ہی کرتا آیا ہے۔
مقامی بروکریج ہاؤس میں ریسرچر حسن عباس کا کہنا ہے کہ اچھی بات ہے کہ اسٹینڈ بائی پروگرام پر حکومت نے مکمل عمل درآمد کر کے دکھایا اور اسی وجہ سے پاکستان کو بروقت اقساط جاری ہو گئیں.
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ معیشت بچانے کے لیے یہ کافی نہیں اور ابھی ایک نئے پروگرام کو حاصل کرنا ہو گا۔
اُن کے بقول پاکستان کو نئے پروگرام کے لیے مذاکرات شروع کرنے سے پہلے ایسے قدامات کرنا ہوں گے جس سے فنڈ کو یہ یقین آئے کہ معیشت کی بحال کی کوششوں میں ایک تسلسل نظر آرہا ہے۔
اُن کے بقول اس کے لیے ٹیکس کی بنیاد کو بڑھانے، ٹیکس نیٹ سے باہر والے شعبوں پر ٹیکس لگانے اور ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانے کی کوششیں نظر آنی چاہیے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بجلی اور گیس کے شعبے میں بھی بروقت ٹیرف میں اضافہ، گردشی قرضے کو محدود کرنا اور اس سیکٹر میں کیش فلو کو بہتر بنانے سمیت کارخانوں کو نیشنل گرڈ پر منتقل کرنے کے لیے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ہی حکومت کے زیر انتظام چلنے والے کاروباری اداروں میں اصلاحات متعارف کرنی ہوں گی تاکہ ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔
اُن کے بقول ایسے کئی کاروباری ادارے ہیں جہاں اصلاحات لانے کی کوششیں کافی وقت لے سکتی ہیں اور پھر ان اصلاحات کے دیرپا ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔
خیال رہے کہ حکومت پاکستان کے زیر انتظام 100 سے زائد سرکاری اداروں کا سالانہ نقصانات 14 سو ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ ان میں سے قومی ایئر لائن پی آئی اے کا خسارہ 800 ارب سے زائد ہے۔