پاکستان کے نگراں وزیر برائے اطلاعات و نشریات مرتضیٰ سولنگی نے ایک مرتبہ پھر زور دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اسلام آباد اور کابل کے مستقبل کے تعلقات کا دارومدار طالبان حکومت کے رویے پر منحصر ہے۔
ان کے مطابق جب تک طالبان حکومت دہشت گرد عناصر بشمول تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجوؤں کو پناہ دیتی رہے گی تب تک تعلقات میں بہتری ممکن نہیں ہو سکتی۔
نگران وزیرِ اطلاعات کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر آیا ہے جب حال ہی میں پاکستان اور ایران نے ایک دوسرے کی حدود میں فضائی حملے کیے جس میں دونوں اطراف سے ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی۔
بھارتی ٹیلی ویژن ‘وی آن’ نیوز کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران پاکستان کے نگراں وفاقی وزیر نے دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے بارے میں واضح کیا کہ جب تک وہ قومی دھارے میں آ کر ہتھیار نہیں ڈالتے اور آئین پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے تب تک ان عناصر سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔
ماہرین کے مطابق وفاقی وزیر کا یہ بیان مایوسی اور نا امیدی کی عکاسی کرتا ہے۔
سینئر صحافی اور ماہر افغان امور سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ٹی ٹی پی کا مسئلہ انتہائی پیچیدہ صورتِ حال اختیار کر گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کالعدم تنظیم کی وجہ سے آئے روز تناؤ میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ٹی ٹی پی پاکستانی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بناتی رہی ہے اور حالیہ مہینوں میں اس گروہ نے پاکستان کو کافی نقصان پہنچایا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال ٹی ٹی پی نے پاکستان کے اندر سیکڑوں حملوں کی ذمہ داری قبول کی جس میں زیادہ تر کارروائیوں کا محور سیکیورٹی فورسز ہی تھیں۔
پاکستان کا طویل عرصے سے یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور ٹی ٹی پی سمیت دیگر عسکریت پسند گروپ وہاں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ پاکستان افغان طالبان سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا آ رہا ہے۔
افغان طالبان کا یہ مؤقف ہے کہ ان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہی سمجھتی ہے۔
‘دونوں ممالک کے تعلقات سرد مہری کی جانب بڑھ رہے ہیں’
سمیع یوسف زئی کے مطابق اس صورتِ حال کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تعلقات سرد مہری کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ایسے وقت میں جب گزشتہ دس دونوں سے طور خم بارڈر تجارتی حلقوں کے لیے بند ہے۔
ان کے بقول لوگوں کو ویزہ کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور باہمی آمد و رفت میں بھی شدید دشواریاں درپیش ہیں۔ ایسے میں پاکستان طالبان پر دباؤ بڑھانے کے لیے اب ہر چیز کو ٹی ٹی پی کے مسئلے کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔
ان کے مطابق یہ سب کچھ پاکستان کی جانب سے سفارتی سطح کی ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔
افغان امور کے ماہر کا مزید کہنا تھا کہ طالبان حکومت جب اپنے ہی عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کر پا رہی ہے تو وہ پاکستان کے خدشات کی کیا پرواہ کرے گی۔
ان کے مطابق پاکستان کی گزشتہ 40 سال کی انویسٹمنٹ کا اس قدر برا انجام بھی پاکستان کے لیے ہضم کرنا بظاہر مشکل نظر آ رہا ہے۔ پاکستان کی یہ امید کہ کابل میں طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے سے پاکستان کے لیے سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، ایسا قطعی طور پر نہیں دیکھا گیا۔
حالیہ مہینوں میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کے خلاف آپریشن اور ملک میں داخل ہونے والے افغان شہریوں کے لیے دستاویزات کی شرائط کو سخت کرنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان متعدد سرحدی گزرگاہیں عارضی طور پر بند ہوتی رہی ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طورخم بارڈر کراسنگ گزشتہ ایک ہفتے سے ہر قسم کی تجارت کے لیے بند ہے۔
پاکستانی بارڈر حکام نے طورخم پر تجارت کو ڈرائیوروں کے ویزوں سے مشروط کیا ہے جب کہ اس ایشو پر دونوں ملکوں کے بارڈر حکام کی متعدد ملاقاتیں اب تک بے نتیجہ رہی ہیں۔
‘افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی سے راہیں جدا کرنا نا ممکن ہے’
سینئر تجزیہ کار داؤد خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان کی افغان حکام سے ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کی امیدیں پہلے دن سے غلط فہمی کا نتیجہ تھیں۔
ان کے مطابق ایسے تمام افراد جو قبائلی روایات اور شدت پسندی کے موضوع کو سمجھتے ہوں وہ بخوبی آگاہ ہیں کہ افغان طالبان کے لیے ٹی ٹی پی سے راہیں جدا کرنا نا ممکنات میں شامل ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ حیران ہیں کہ پاکستانی فوج اور حکومت اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
ان کے بقول اگر افغان طالبان کو پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان کسی ایک کو چننے کا کہا جائے تو وہ باہمی نظریات، عقیدہ، قبائلی روایات کو مدِ نظر رکتھے ہوئے ٹی ٹی پی کو ترجیح دیں گے۔
داؤد خٹک کے مطابق ایک وقت میں افغانستان پاکستان کے لیے بطور ‘اسٹرٹیجک ڈیپتھ’ کی حیثیت رکھتا تھا جب کہ اب افغان طالبان کے لیے پاکستان کے قبائلی علاقے ‘اسٹرٹیجک ڈیپتھ’ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کے بقول اگر پاکستان اپنے مطالبات اور دباؤ افغان حکام پر جاری رکھتا ہے تو انہیں خدشہ ہے کہ مستقبل قریب میں یہ تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں جس کا فائدہ خطے کے دیگر ممالک بھی اٹھا سکتے ہیں۔