|
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کے معاملے کی تحقیقات پر اتفاق کیا ہے جبکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹیلی جینس اداروں کی مداخلت کے متعلق معاملہ عدلیہ کے لیے چیلنج ہو گا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو ایک خط لکھا تھا جس میں عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مبینہ مداخلت کی شکایت کی تھی۔
پاکستان میں عدلیہ کے فیصلوں پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ تاہم حالیہ عرصے میں ایسے الزامات میں اضافہ ہوا ہے۔
ہائی کورٹ کے ججز کی شکایت کے بعد جمعرات کو وزیرِ اعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سپریم کورٹ میں ان سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا اعلان بھی کیا۔
البتہ حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے کا حکومتی اعلان مسترد کر دیا ہے۔
پی ٹی آئی کا مطالبہ ہے کہ معاملے کو سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سامنے رکھا جائے اور اوپن کورٹ میں سماعت کی جائے۔
دوسری جانب قانونی ماہرین معاملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کے اعلان کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شائق عثمانی کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں سیاسی تقسیم اور سیاسی جماعتوں کے باہمی مسائل عدالتوں میں جانے سے عدلیہ میں مداخلت بڑھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت کی شکایت کی تھی لیکن عدلیہ نے ان کی بات کو کافی عرصہ نظر انداز کیا۔ لیکن حال ہی میں سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت صدیقی کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
واضح رہے کہ 2018 میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے راولپنڈی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ عدالتوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور اپنے من پسند فیصلوں کے لیے بینچ تشکیل دینے کے معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔
اس تقریر کے بعد شوکت عزیز صدیقی کو ججز کے ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دے کر اکتوبر 2018 میں عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
لیکن اس بار اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز نے عدالتی امور میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام لگایا ہے۔
جسٹس (ر) شائق عثمانی کہتے ہیں کہ یہ خوش آئند بات ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے اس معاملے پر کھل کر بات کی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جوڈیشل کونسل کے پاس بہت اختیارات ہیں کہ وہ کسی کو بھی بلوا سکتی ہے اور کوئی بھی دستاویز منگوا کر اس کا مشاہدہ کر سکتی ہے۔
سیاسی و دفاعی امور کی تجزیہ کار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق جج شوکت صدیقی نے چند برس قبل جو بات کہی تھی وہی بات اب ہائی کورٹ کے چھ جج کر رہے ہیں۔
ان کے خیال میں خفیہ اداروں کی مداخلت کی شکایت کرنے والے جسٹس شوکت صدیقی اکیلے تھے اس لیے ان کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی لیکن موجودہ ججز بہت ساکھ والے ہیں اس لیے عدلیہ میں خفیہ اداروں کی مداخلت کے الزامات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔
عائشہ صدیقہ کے بقول “اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایس آئی کی مداخلت مختلف سطح پر بڑھی ہے جس میں سیاست، میڈیا اور عدلیہ قابلِ ذکر ہیں۔ اس مداخلت کے سیاست اور معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے اور حکومت کی ساکھ پر بھی سوال اٹھ سکتا ہے۔”
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ حالیہ عرصے میں سیاسی نوعیت کے خاص مقدمات میں عدلیہ پر دباؤ بڑھا ہے اور ہائی کورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے بعد اداروں میں کھلبلی مچے گی۔ اس صورتِ حال میں چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے اس معاملے کو طے کرنا آسان نہیں ہو گا کیوں کہ اعلیٰ عدلیہ میں بھی تقسیم پائی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی ساکھ کے لیے ہائی کورٹ کے ججز کے تحفظات کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا جب کہ داخلی تقسیم کے باعث یہ معاملہ عدلیہ بمقابلہ عدلیہ کا رُخ بھی اختیار کر سکتا ہے۔
عائشہ صدیقہ کے بقول اگر عدلیہ نے اس معاملے پر کوئی پوزیشن لی تو فوج کی جانب سے اس پر ردِعمل بھی آ سکتا ہے۔