|
اسلام آباد _ پاکستان کی پارلیمان سے منظور ہونے والے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل پر صدر آصف علی زرداری کے دستخط کے بعد بل قانون بن گیا ہے جس پر ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قانون سے اداروں کے درمیان لڑائی کا ماحول پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں نئے قانون کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے سکتی ہے اور ایسا تفصیلی فیصلے میں بھی کیا جا سکتا ہے، مگر مخصوص نشستوں کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ہونے کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔
مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکنِ قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
بعدازاں پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے چھ اگست کو بل کثرتِ رائے سے منظور کیا جس پر مقامی میڈیا کے مطابق صدرِ مملکت نے دستخط بھی کر دیے ہیں۔
یہ بل پارلیمان سے ایسے موقع پر منظور ہوا ہے جب سپریم کورٹ کا مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ اب تک جاری نہیں ہو سکا۔
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے حق میں فیصلہ دیا تھا جس کے تحت عام انتخابات کے دوران کاغذاتِ نامزدگی میں پارٹی وابستگی ظاہر نہ کرنے والے آزاد اراکین کو کسی بھی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے 15 دن کا وقت دیا تھا جب کہ دیگر اراکین کو پی ٹی آئی کا قرار دیا تھا۔
بعض قانونی ماہرین نے سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کو آئین تحریر کرنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کرنے کا اختیار ہے مگر آئین تحریر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن امان اللہ کنرانی کے مطابق سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد منظور ہونے والے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کا بظاہر مقصد سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنا ہے اور یہ عمل آئین کے خلاف ہے۔
‘سپریم کورٹ ترمیمی بل ختم کرسکتی ہے’
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ ترمیمی بل آئین کی خلاف ورزی کے ساتھ بدنیتی پر مبنی ہے، بظاہر لگتا ہے کہ یہ بل سپریم کورٹ کو شکست دینے کے لیے لایا گیا ہے۔
ان کے خیال میں سپریم کورٹ مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلے میں ترمیمی بل کو ختم بھی کر سکتی ہے۔
امان اللہ کنرانی کے بقول، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے مگر پارلیمنٹ آئین اور بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔
سینئر قانون دان ڈاکٹر خالد رانجھا کا بھی کہنا ہے کہ پارلیمان آئین میں دیے گئے مینڈیٹ کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے۔ یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کرسکتی۔ البتہ اختلافِ رائے کی صورت میں فیصلہ عدالت ہی کرسکتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ پارلیمنٹ اور عدلیہ میں لڑائی کی صورتِ حال نہیں دیکھ رہے۔ کیوں کہ اختلاف کی صورت میں معاملہ عدالت جاتا ہے اور عدالت فیصلے کرتی ہے۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد کے مطابق قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس سے یہ اختیار نہیں چھین سکتی۔
ان کے خیال میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے قانون بننے سے قبل ہی پی ٹی آئی نے اسے چیلنج کر کے جلد بازی کی ہے۔
یاسین آزاد نے کہا کہ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں دو ججز کا فیصلے سے متعلق اختلافی نوٹ سامنے آ چکا ہے جس میں اٹھائے گئے سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ آزاد ارکان کی کسی پارٹی میں شمولیت سے متعلق آئین میں تین دن کا ذکر ہے۔ مگر سپریم کورٹ نے آزاد اراکین کو 15 دن فیصلہ کرنے کے لیے دیے اور تفصیلی گائیڈ لائن بھی نہیں دیں۔ اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کو بھی چھٹیوں کے بعد سننے کا کہا گیا ہے۔
البتہ ان کے خیال میں حکومت سمیت کسی کو بھی اس مسئلے کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
قانون دان یاسین آزاد کے مطابق مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں پی ٹی آئی نہیں بلکہ سنی اتحاد کونسل درخواست گزار تھی۔ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں سنی اتحاد کونسل کی درخواست خارج کر چکی ہے لیکن فیصلے میں اس جماعت کو ریلیف دیا گیا جو درخواست گزار بھی نہیں تھی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں آئین میں آزاد اراکین کو کسی پارٹی میں شامل ہونے سے متعلق فیصلہ کرنے کے لیے تین دن کا ذکر ہے۔ مگر فیصلے میں 15 دن دینا آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔
ان کے خیال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ الٹنے کے لیے ترمیمی بل لایا گیا ہے جس سے اداروں کے درمیان لڑائی بڑھنے کا خدشہ ہے۔ البتہ اعلیٰ عدالت ترمیمی بل کو کالعدم قرار دے سکتی ہے۔
سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ سینیٹر ضمیر گھمرو کہتے ہیں آئین تحت مخصوص نشستیں اُس جماعت کو دی جا سکتی ہیں جس نے جنرل نشستیں جیتی ہوں۔ مگر عدالت اس جماعت کو مخصوص نشستیں دینے کا کہہ رہی ہے جس نے کوئی نشست نہیں جیتی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بیرسٹر ضمیر گھمرو نے کہا، “میری نظر میں سپریم کورٹ کا فیصلہ آئین کے تحت نہیں بلکہ نظریۂ ضرورت کے تحت دیا گیا فیصلہ ہے جو آئین کو دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف ہے۔”
انہوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق آٹھ ججوں کی اکثریت سے فیصلہ آیا ہے مگر سپریم کورٹ کے 15 ججوں کا فیصلہ موجود ہے جو پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے متعلق تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عدالتی فیصلے کو پارلیمنٹ کے علاوہ کوئی ختم نہیں کرسکتا۔