پاکستان میں عام انتخابات کے نتائج سامنے آنے کے بعد حکومت سازی کے لیے جوڑ توڑ جاری ہے۔ لیکن قومی اسمبلی میں بطور پارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والی مسلم لیگ (ن) نہ تو نتایج سے خوش ہے اور نہ ہی پاکستان پیپلزپارٹی مطمئن دکھائی دیتی ہے۔
ایسے میں مولانا فضل الرحمٰن نے بھی اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے بعد سیاسی بے یقینی میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں، تاہم پی ٹی آئی بھی انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہے۔
دھاندلی کے الزامات اور احتجاج
جماعتِ اسلامی، جمعیت علمائے اسلام (ف)، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ)، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) سمیت دیگر جماعتیں بھی انتخابی نتائج پر خوش نہیں ہیں۔
سولہ فروری کو جی ڈی اے میں شامل پارٹیوں نے حیدر آباد میں قومی شاہراہ پر دھرنے کا اعلان کیا ہے اور سندھ اسمبلی کے پہلے اجلاس کے روز کراچی میں احتجاج کرنے کی بھی تیاری کی جا رہی ہے۔
بلوچستان میں محمود خان اچکزئی، اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور عبدالخالق ہزارہ کی پارٹیوں نے 15 فروری کو بلوچستان بھر میں ریلیاں اور مظاہرے کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اسی طرح 17 فروری کو بلوچستان میں اس چار جماعتی اتحاد نے کوئٹہ میں احتجاجی جلسہ کرنے اور 18 فروری کو بلوچستان بھر میں قومی شاہراہوں پر پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
انتخابات کے بعد پی ٹی آئی صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مسلسل احتجاج کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی نے انتخابی نتائج کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ایک طرف انتخابی نتائج کے خلاف پاکستان بھر میں احتجاجی سیاست میں تیزی نظر آ رہی ہے تو دوسری طرف انتخابی نتائج کے خلاف عدالتوں میں قانونی جنگ بھی جاری ہے۔
پی ٹی آئی نے انتخابات میں بطور پارٹی سب سے زیادہ نشستیں لینے والی تین جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ایم کیو ایم سے حکومت سازی کے لیے کوئی مشاورت یا رابطہ نہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پی ٹی آئی کے اس فیصلے سے لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی وفاقی حکومت بنانے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے ذہن بنا چکی ہے۔
اس ماحول میں دیگر جماعتوں کی جانب سے حکومت سازی کے لیے مشاورتی عمل کو تو آگے بڑھایا جا رہا ہے مگر وفاق میں حکومت سازی کے عمل میں کئی مسائل سامنے آ رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کا فیصلہ کیا مسلم لیگ (ن) کے لیے قابلِ قبول ہو گا؟
انتخابی نتائج کے مطابق کوئی بھی جماعت اپنے بل بوتے پر وفاق میں حکومت بنانے کے قابل نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں اختلافات اس نہج پر ہیں جہاں ان دونوں پارٹیوں میں اتحاد ممکن نہیں ہے۔
پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنا سکتی تھی مگر پی ٹی آئی نے اس امکان کو رد کر دیا ہے۔
ماہرین کے مطابق شاید پی ٹی آئی کو ایسا لگ رہا ہو کہ پیپلزپارٹی اسٹیبلشمنٹ کی ناراضگی مول نہیں لے گی۔ جب کہ پی ٹی آئی جارحانہ حکمتِ عملی برقرار رکھے گی تاکہ معاملات دوبارہ نئے انتخابات کی طرف جا سکیں۔
بہرحال مسلم لیگ (ن) کے ساتھ پی ٹی آئی کے علاوہ قومی اسمبلی میں نشستیں حاصل کرنے والی ساری جماعتیں مل جائیں اور صرف پیپلز پارٹی حمایت نہ کرے تو مسلم لیگ (ن) وفاق میں حکومت نہیں بنا سکتی۔
“ایسے کیسے ہو سکتا ہے کے حکومت کے مشکل فیصلوں کا سارا ملبہ مسلم لیگ (ن) پر گرے، مشکل فیصلوں کی وجہ سے عوام کے سخت ردِعمل کا سامنا مسلم لیگ (ن) کرے اور سارے بڑے آئینی عہدے پیپلز پارٹی کو دے دیے جائیں۔”
یہ کہنا تھا مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال کا جو ‘جیو نیوز’ کے پروگرام میں گفتگو کر رہے تھے۔
ماہرین کے مطابق احسن اقبال کے بیان سے لگ رہا ہے کے مسلم لیگ (ن) اکیلے سارے مشکل فیصلوں کا وزن نہیں اٹھائے گی اور پیپلز پارٹی کو بھی حکومت میں شامل کرنے کی کوشش کی جائی گی۔
بلاول بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا کہ “اگر وفاق میں حکومت نہ بنی تو دوبارہ انتخابات کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔”
منگل کی شب چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے بعد مشترکہ نیوز کانفرنس میں شہباز شریف نے کہا کہ “شراکتِ اقتدار کے معاملات طے کرنے کے لیے اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کی کمیٹیاں بنائی جا رہی ہیں جو فیصلے کریں گی۔”
وفاقی حکومت میں صرف پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ ایم کیو ایم بھی کوئی وزارت نہیں لینا چاہتی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے بھی شہباز شریف کو اپوزیشن میں بیٹھنے کے اردے سے آگاہ کیا ہے۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ وہ حکومت میں شامل ہونے کی دعوت پر پارٹی میں مشاورت کریں گے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جو بھی حکومت بنے گی، اس کو آتے ہی عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے رُجوع کرنا ہو گا۔ لہذٰا آئی ایم ایف جو کڑی شرائط عائد کرے گا، اس کا لامحالہ بوجھ عوام پر بھی منتقل ہو گا۔
نواز شریف کا وزارتِ عظمی لینے سے انکار
چوہدری شجاعت حسین کی رہائش گاہ پر گفتگو کرتے ہوئے شہباز شریف نے یہ بھی کہا کہ وہ نواز شریف سے درخواست کریں گے کہ وہ وزارتِ عظمیٰ سنبھالیں، لیکن کچھ ہی دیر بعد مریم اورنگزیب نے بیان جاری کیا کہ نواز شریف نے شہباز شریف کو وزیرِ اعظم نامزد کیا ہے۔
میاں نواز شریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز پنجاب میں وزیرِ خزانہ اور پھر وزیرِ اعلی پنجاب کے طور پر کیا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مریم نواز نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز پنجاب سے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
علی امین گنڈا پورا کی بطور وزیرِ اعلٰی نامزدگی
پی ٹی آئی نے جارح مزاج علی امین گنڈا پور کو خیبرپختونخوا میں وزیرِ اعلٰی نامزد کیا ہے جس پر سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔
بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ وزیرِ اعلٰی ایسا شخص ہو جو کسی بھی معاملے پر عمران خان کی پالیسی کے خلاف نہ جائے۔
پنجاب کی طرح صوبہ سندھ میں بھی کبھی کوئی خاتون وزیرِ اعلٰی نہیں بنیں، تاہم سید مراد شاہ، سید ناصر حسین شاہ کے ساتھ ساتھ فریال تالپور کا نام بھی سندھ کی وزارتِ اعلٰی کے لیے سامنے آ رہا ہے۔
بعض ماہرین کے مطابق پنجاب میں مریم نواز کے بعد اب فریال تالپور کے وزیرِ اعلٰی سندھ بننے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔
انتخابات کے نتائج پر ردِعمل کیا 1977 والی تاریخ دہرائی جائے گی؟
آٹھ فروری 2024 کے انتخابات کے غیر حتمی نتائج کے اعلان کے بعد 1977 کے انتخابات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔
صحافتی حلقوں کے ساتھ سیاسی حلقوں کو بھی آٹھ فروری کے انتخابات کے بعد 1977 کے انتخابات کے بعد جیسی صورتِ حال کا خدشہ ہے۔
پیپلزپارٹی کے ایک سینیئر رہنما کا کہنا تھا کے اس انتخاب کے بعد 1977 کے انتخابات کی طرح صورتَ حال پیدا ہو سکتی ہے۔
پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی نے بردباری اور دُور اندیشی نہ دکھائی تو پھر 1977 جیسے حالات ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ مارچ 1977 میں پاکستان میں دوسرے پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے جس میں پیپلزپارٹی کو اکثریت ملی تھی۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے انتخابی نتائج مسترد کرتے ہوئے تحریک شروع کر دی تھی اور یوں پانچ جولائی 1977 کو ملک میں مارشل لا لگ گیا تھا۔