|
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور تحریکِ انصاف کے بانی عمران خان کے لیے سہولت کاری کے الزام میں اڈیالہ جیل کے سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کو حراست میں لے لیا گیا ہے جب کہ ان کے ساتھیوں سے بھی پوچھ گچھ جاری ہے۔
وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے محمد اکرم کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کی جیل سے سہولت کاری کی جارہی تھی جس کی وجہ سے اڈیالہ جیل کے ایک افسر کو حراست میں لیا گیا ہے۔
محمد اکرم کو 20 جون کو نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کے عہدہ سے فوری طور پر ہٹا دیا گیا تھا اور انہیں لاہور رپورٹ کرنے کا کہا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ اڈیالہ جیل کی کالونی میں موجود اپنی رہائش گاہ پر تھے جنہیں بدھ کی صبح حراست میں لیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق محمد اکرم کے ساتھ دیگر دو افسران بھی زیرِ تفتیش ہیں جن میں اڈیالہ جیل کے اسسٹنٹ ناظم شاہ اور سابق ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ ظفر بھی شامل ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے قریبی اہلکاروں سے بھی تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق محمد اکرم کے دو اردلی، تین وارڈر اور ہیڈ وارڈر سے بھی پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔ ان تمام افراد سے جیل میں عمران خان کو موبائل فون کی سہولت فراہم کرنے سے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔
رپورٹس کے مطابق محمد اکرم کے قبضے سے تین یورپی ممالک کے نمبرز پر بنائے گئے واٹس ایپ کے لیے استعمال ہونے والے موبائل فون کے شواہد ملے ہیں۔
بعض سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم پی ٹی آئی رہنما زلفی بخاری، پنجاب کے سابق وزیر راجا بشارت کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ محمد اکرم گذشتہ 18 سال سے اڈیالہ جیل میں ہی تعینات تھے اور مختلف سیاسی شخصیات کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ محمد اکرم کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال بھی کی جا رہی ہے۔
صحافی وسیم اختر کے مطابق گذشتہ روز جب محمد اکرم کو حراست میں لیا گیا تو ان کی اہلیہ نے اڈیالہ جیل کے مرکزی کنٹرول روم میں فون کرکے دھمکی دی کہ اگر ان کے شوہر کے بارے میں انہیں معلومات نہیں دی گئیں تو وہ خود سوزی کرلیں گی جس کے بعد اڈیالہ کے افسران نے ان کی اہلیہ سے ملاقات کی اور ان کی گرفتاری کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا۔
اڈیالہ جیل میں عمران خان کے خلاف کیسز کی کوریج کرنے والے صحافی شبیر ڈار نے ‘ایکس’ پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ ایک مرتبہ عمران خان سے صحافیوں نے سوال کیا کہ آپ کے پاس تمام معلومات کہاں سے آتی ہیں؟ جس پر عمران خان نے ہنستے ہوئے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ محمد اکرم کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ مجھے سب کچھ اکرم بتاتا ہے۔
ان کے بقول اس وقت اس بات کو مذاق کے طور پر لیا گیا لیکن محمد اکرم کی گرفتاری کے بعد ثابت ہورہا ہے کہ عمران خان نے درست کہا تھا۔
محمد اکرم عمران خان کی سیکیورٹی کے بھی ذمہ دار تھے۔ بعض صحافیوں کے بقول اس وجہ سے یہ سمجھا جا رہا ہے کہ عمران خان کے سب سے زیادہ قریب رہنے والے شخص یہی تھے اور یہی جیل سے باہر پیغام پہنچانے اور وصول کرنے والے تھے۔
رپورٹس کے مطابق حساس ادارے محمد اکرم سے ابھی تفتیش کر رہے ہیں جس کے بعد ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوگی اور اگر ان پر عمران خان کے لیے سہولت کاری اور پیغام رسانی کا الزام ثابت ہوگیا تو ان کو ملازمت سے برطرف کرنے کے علاوہ جیل رولز کے مطابق قید کی سزا بھی دی جاسکتی ہے۔
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نو مئی واقعات سمیت مختلف مقدمات میں اس وقت جیل میں ہیں۔
حکومت اور پاکستان فوج کا یہ مؤقف ہے کہ نو مئی کے منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
عمران خان بھی نو مئی واقعات پر کہہ چکے ہیں کہ نو مئی کی سی سی ٹی وی فوٹیجز سامنے لائی جائیں اور اگر ان فوٹیجز میں پی ٹی آئی کا ایک بھی کارکن نظر آیا تو معافی مانگیں گے۔