|
اسلام آباد _ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے امریکہ و غیر ملکی طاقتوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ پاکستان کی داخلی سیاست میں مداخلت کر رہی ہیں اور اس کا مقصد پاکستان سے اس کی ایٹمی و میزائل طاقت چھیننا ہے۔
اپنی والدہ اور پاکستان کی سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کی 17ویں برسی کے موقع پر جمعے کو گڑھی خدا بخش میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بلاول نے کہا تھا کہ مختلف ممالک پاکستان کی داخلی سیاست کے بارے میں بیان دے رہے ہیں جو کہ صرف بہانہ ہے۔
ان کے بقول امریکہ اور مغربی ممالک کو پاکستان کی جمہوریت، انسانی حقوق اور کسی قیدی کے بارے میں کوئی فکر نہیں۔ بلکہ عمران خان ایک بہانہ ہے اصل نشانہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی ہے۔
بلاول کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں آیا جب رواں ماہ امریکہ نے پاکستان کے میزائل پروگرام سے منسلک پاکستانی ادارے سمیت چار کمپنیوں پر پابندی عائد کی تھی۔
امریکی پابندی کے اگلے ہی روز وائٹ ہاؤس کے سینیئر اہلکار جون فائنر نے پاکستان پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل کی صلاحیتوں کو ترقی دینے کا الزام لگایا تھا۔
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نامزد ایلچی نے بھی حال ہی میں عمران خان کی رہائی پر زور دیا تھا۔
امریکی اقدامات و بیانات کی روشنی میں بلاول نے اپنی تقریر کے دوران کہا تھا کہ وہ دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ جب تک پیپلز پارٹی موجود ہے، ہم اپنی ایٹمی طاقت یا میزائل پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
بلاول بھٹو کے بقول عمران خان کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ لوگ جو پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے خلاف بیان دیتے رہے ہیں وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کی مہم کیوں چلا رہے ہیں۔
مبصرین بلاول کے بیانات کو سیاسی بیان کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری کہتے ہیں کہ پاکستان کے ایٹمی اور میزائل پروگرام پر امریکہ و مغرب کی تنقید نئی بات نہیں ہے اور تنقید کا یہ سلسلہ 1976 سے چلا آرہا ہے۔ البتہ بلاول نے امریکہ اور عمران خان پر بیک وقت تنقید کر کے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین کا یہ بیان عوام کو خوش کرنے کے لیے تھا تاکہ انہیں مقبولیت مل سکے۔
ان کے بقول، اس وقت حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی پیپلز پارٹی کو عمران خان کی مقبولیت کا خوف ہے اور دونوں ہی جماعتیں عمران خان کو ہدفِ تنقید بنا کر مقبولیت کی خواہاں ہیں۔
نمل یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر طاہر نعیم ملک کہتے ہیں کہ بلاول بھٹو نے عمران خان کے مقابلے میں ایک متبادل بیانیہ دینے کی کوشش کی ہے جو کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک اچھی حکمتِ عملی ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان چوں کہ نیشنلسٹ بیانیہ اپناتے ہیں لیکن بلاول نے اپنی تقریر میں قوم پرست بیانیہ اپنایا ہے جو کہ ریاست کی آواز بھی ہے۔
طاہر ملک کہتے ہیں کہ عمران خان کی رہائی سے متعلق ٹرمپ کے ایلچی کے بیانات پر حکمراں جماعت کوئی واضح جواب نہیں دے سکی ہے جب کہ بلاول بھٹو کا بیان اس وجہ سے بھی زیادہ اہمیت حاصل کر رہا ہے کہ کیوں کہ حکومتی وزرا اس صورتِ حال پر کسی واضح بیانیے کے ساتھ سامنے نہیں آئے۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے ‘غیر ملکی مداخلت’ کا مقابلہ کرنے کے لیے سیاسی استحکام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اپنی تقریر میں مطالبہ کیا تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے اہم فیصلے اتفاق رائے سے کیے جائیں۔
پروفیسر طاہر ملک کے مطابق بلاول نے اپنے بیان سے قومی سلامتی کے اداروں کی سوچ کی ترجمانی کرنے اور ساتھ ہی عمران خان کے امریکہ کے حوالے سے متضاد بیانات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔
ان کے خیال میں اگر حکومت بلاول کے بیانیے کو اپناتی ہے تو یہ اس کے لیے فائدہ مند ہو گا کیوں کہ پہلی مرتبہ موجودہ صورتِ حال پر کوئی واضح متبادل بیانیہ سامنے آیا ہے۔
تجزیہ کار حسن عسکری کے بقول پاکستان میں حزبِ اختلاف سے ہونے والے سلوک پر مغرب اور امریکہ اعتراض اٹھا رہے ہیں، تو حکومت اسے داخلی معاملات میں مداخلت گردانتی ہے اور یہی بات بلاول نے بھی کہی ہے۔
ان کے خیال میں حکومت اور پیپلز پارٹی دباؤ محسوس کر رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم حکومت سنبھالنے کے بعد عمران خان کی رہائی کے لیے ممکنہ دباؤ ڈال سکتی ہے اس لیے دونوں جماعتیں پیشگی اقدامات لے رہی ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان بارہا کہہ چکے ہیں کہ عمران خان کی رہائی کا معاملہ پاکستان کے نظامِ انصاف نے ہی دیکھنا ہے۔