پاکستان میں سیاسی ہارس ٹریڈنگ کے لیے میدان سازگار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جہاں ہفتے کی رات کو چند مزید انتخابی نشستوں کے نتائج سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہو گیا کہ کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں ملی۔ تاہم جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کے حامی آزاد امیدواروں نے مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف نے مہینوں سے جاری اس کریک ڈاؤن کا مقابلہ کیا، جس نے اس کی انتخابی مہم کو مفلوج کر رکھا تھا اور اس کے امیدواروں کو جمعرات کے انتخابات میں آزاد امیدوار کے طور پر حصہ لینے پر مجبور کر دیا تھا، لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف نے اپنے اہم حریفوں کو ایک بڑا چیلنج دیا ہے۔
انتخابی نتائج کے سامنے آنے میں طویل تاخیر نے مزید ایسے الزامات کو جنم دیا کہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ ووٹوں کی کسی دھاندلی میں مصروف ہے۔ بالآخر رات گئے پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) نے اپنی فتح کا اعلان کر دیا اور دعویٰ کیا کہ ان کے پاس ایک جماعت کے طور پر سب سے زیادہ نشستیں ہیں۔
لیکن تین بار کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جماعت حکومت بنانے کے لیے حریفوں اور آزاد امیدواروں سے معاہدے کرنے پر مجبور ہو گی۔
جمعے کو رات گئے ایسی اطلاعات تھیں کہ دیگر جماعتوں کے رہنما مذاکرات کے لیے مسلم لیگ ن کے پاور بیس لاہور پہنچے ہیں۔
نواز شریف نے لاہور میں اپنے پارٹی ہیڈ کوارٹر میں کہا کہ “ہمارے پاس اتنی اکثریت نہیں ہے کہ ہم خود حکومت چلا سکیں، اس لیے ہم دوسری پارٹیوں اور امیدواروں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کام کریں”۔
گنتی کے سست عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہفتے کی صبح تک آزاد امیدواروں نے کم از کم 98 نشستیں جیت لی تھیں، جن میں سے 87 امیدواروں کی وفاداری عمران خان کے ساتھ بتائی جا رہی ہے۔
اس وقت تک مسلم لیگ (ن) نے 69 اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے 51 نشستیں حاصل کی تھیں ، لہذا 266 نشستوں والی قومی اسمبلی کی آخری 20 یا اس سے زائد نشستوں کا اعلان ہونا ابھی باقی ہے۔
دیگر نشستیں غیر منتخب یا مخصوص نشستیں ہیں، جو مذہبی اقلیتوں اور خواتین امیدواروں کو بعد کی تاریخوں میں الاٹ کی جائیں گی۔
عمران خان کے حامیوں کی جیتی ہوئی زیادہ تر نشستیں خیبر پختونخواہ میں ہیں۔ جہاں پولیس کے مطابق جمعہ کے روز شانگلہ ضلع میں ہونے والے ایک احتجاج میں پی ٹی آئی کے کم از کم دو حامی ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ انتخابات کے انعقاد کے بعد سے ہونے والا سنگین تشدد کا رپورٹ ہونے والا پہلا واقعہ ہے۔
خیبرپختونخوا کے دارالحکومت پشاور اور صوبہ بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں بھی انتخابی نتائج میں مبینہ دھاندلی کے الزامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
“ہمارے نتائج تبدیل کر دیے گئے ہیں،” 28 سالہ دکاندار محمد سلیم نے دعویٰ کیا، جو پشاور میں پی ٹی آئی کے تقریباً 2000 حامیوں کے ساتھ مارچ میں شامل ہوئے تھے۔
“حکومت کو ہمارے تمام ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرنی چاہیے۔”
امید کسے کس سے ہے؟
مبصرین کو توقع تھی کہ نواز شریف کی مسلم لیگ ن کو سب سے زیادہ نشستیں حاصل ہو جائیں گی، کیونکہ خیال کیا جا رہا تھا کہ مسلم لیگ نون کے 74 سالہ قائد نواز شریف کو ملک کی مقتدر قوتوں کی آشیرواد حاصل ہے۔
عمران خان کو ووٹنگ سے چند روز قبل تین کیسز میں طویل قید کی سزائیں سنائے جانے کے بعد انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔
ملک بھر میں الیکشن کے دن موبائل ٹیلی فون بلیک آؤٹ اور نتائج کی گنتی میں تاخیر نے شکوک و شبہات کو جنم دیا تھا کہ ملک کی مقتدر قوتیں نواز شریف کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے نتائج کے عمل پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔
اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق جو امیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے ہیں وہ اپنے طور پر حکومت نہیں بنا سکتے۔ انہیں کامیابی کے 72 گھنٹوں کے اندر منتخب جماعتوں سے وابستگی کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔ یہ طریقہ کار پاکستانی سیاست میں اکثر کچھ ایسے بندوبست کا باعث بنتا ہے، جو پی ٹی آئی کی کامیابی کو کمزور کر سکتا ہے۔
گیلپ پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بلال گیلانی کا کہنا ہے کہ”پی ٹی آئی ایک پارٹی اور سیاسی گروپ کے طور پر، سویلین اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اہم کوششوں کے باوجود، اپنے ووٹ بینک کو قائم رکھے ہوئے ہے۔”
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، “اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوج ہمیشہ اپنی مرضی نہیں کر سکتی، یہی امید کی کرن ہے۔”
پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی، جس کی مقبولیت زیادہ تر سندھ کے مرکز تک محدود ہے، توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، اور پی پی پی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ابتدائی نتائج کو “بہت حوصلہ افزا” قرار دیا۔
2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے معمولی برتری سے حکومت بنائی تھی، لیکن اپریل 2022 میں عمران خان کی حکومت کو ہٹانے کے لیے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے چھوٹی جماعتوں سے اتحاد کر لیا تھا۔
اس کے بعد سابق بین الاقوامی کرکٹر نے فوج کی زیرقیادت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت کی ایک بے مثال مہم چلائی، جس نے انہیں کمزور کرنے کے بجائے ان کی حمایت میں اضافہ کیا۔
خان کو گزشتہ ہفتے تین الگ الگ مقدمات میں غداری، بدعنوانی اور “غیر اسلامی” شادی کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ان کے خلاف مختلف الزامات میں 200 مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔
امریکہ اور برطانیہ کے خدشات
برطانیہ نے کہا ہے کہ اس نے ووٹنگ کے عمل پر “سنگین خدشات” کا اظہار کیا ہے، جب کہ امریکہ نے کہا کہ “مداخلت یا دھوکہ دہی کے دعوؤں کی مکمل تحقیقات کی جانی چاہئیں”۔
پاکستان کے نگراں وزیر داخلہ گوہر اعجاز نے سیکیورٹی کی بنیاد پر موبائل فون سروس معطل کرنے کے “مشکل فیصلے” کا دفاع کیا ہے۔
انہوں نے جمعہ کو ایک بیان میں کہا، “ہم پوری طرح سے آگاہ تھے کہ موبائل سروسز کی معطلی سے پاکستان بھر میں انتخابی نتائج کی ترسیل پر اثر پڑے گا اور اس عمل میں تاخیر ہو گی، تاہم، اس تاخیر اور ہمارے شہریوں کی حفاظت کے درمیان انتخاب بالکل واضح تھا۔”
ڈیجیٹل حقوق کے کارکن اسامہ خلجی نے کہا ہے کہ موبائل سروس بلیک آؤٹ “عوام کے اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ انتخابات میں ڈیپ اسٹیٹ کی طرف سے دھاندلی ہوئی ہے”۔
لاہور کی گلیوں میں اخبار پھینکنے والے ایک 19 سالہ ہاکر محمد زبیر نے اے ایف پی سے کہا کہ پی ٹی آئی کے حامی مسلم لیگ ن کی جیت کو قبول نہیں کریں گے۔
“ہر کوئی جانتا ہے کہ عمران خان کے آزاد امیدواروں نے کتنی سیٹیں جیتی ہیں”۔ انہوں نے کہا، “ان کے پاس کوئی نشان تھا، نہ کپتان، نہ جھنڈا، نہ ہی بینرز، لیکن پھر بھی ہم میدان میں جیت گئے ہیں۔”
پاکستان کی وزارت داخلہ نے جمعے کو کہا ہے کہ انتخابات کا دن تشدد سے متاثر رہا، مجموعی طور پر ملک میں ہونے والے 61 واقعات میں زیادہ تر افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع پاکستانی علاقوں میں ہوئے،جن میں کم از کم 16 افراد ہلاک اور 54 زخمی ہوئے،جن میں 10 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔
(یہ مضمون اے ایف پی کے لیے زین زمان جنجوعہ کی رپورٹ سے ترجمہ کیا گیا ہے)