|
اسلام آباد__وفاقی حکومت نے مالی سال 25-2024 کے لیے ایک ایسے وقت میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے وفاقی ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے جب اسے ملکی آمدن بڑھانے کے لیے چلینجز کا سامنا ہے۔
بجٹ میں وفاقی حکومت نے ترقیاتی اسکیموں کے لیے 1500 ارب روپے کی رقم مختص کی ہے لیکن ساتھ ہی اسے شدید معاشی مشکلات اور آمدن بڑھانے کا چلینج درپیش ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں قائم ہونے والی وفاقی حکومت نے سیاسی مصلحتوں کے تحت ملکی تاریخ کے سب سے بڑے وفاقی ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا ہے۔
ان کے نزدیک یہ دراصل سیاسی اقدام ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ جتنی رقم کے ترقیاتی پروگرام کا اعلان کیا گیا ہے وہ رقم آئندہ مالی سال کے دوارن جاری ہو گی اور خرچ بھی کی جائے گی۔
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے 12 جون کو قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئے مالی سال میں پہلے سے جاری منصوبوں کی تکمیل کو ترجیح دی گئی ہے۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ 1500 ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام میں سے سے تقریباً 81 فی صد وسائل جاری منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں جب کہ 19 فی صد نئے منصوبوں کے لیے مختص کیے جا رہے ہیں۔
بجٹ تقریر میں وزیرِ خزانہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں ایسے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی جن پر پہلے سے مختص رقم کا 80 فی صد خرچ ہو چکا ہو اور جنہیں نئے مالی سال میں مکمل کیا جا سکتا ہے۔
رقم کہاں خرچ ہو گی؟
قومی اسمبلی میں پیش کردہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے دستاویز کے مطابق نئے مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں سب سے زیادہ رقم آبی وسائل کے منصوبوں کے لیے رکھی گئی ہے۔ اس کے لیے مجموعی طور پر 259 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
اس کے بعد سب سے بڑی رقم 226 ارب روپے صوبوں اور خصوصی علاقوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ اس میں سے صوبوں کے منصوبوں کے لیے 82 ارب روپے رکھنے کی تجویز ہے۔
وفاقی ترقیاتی بجٹ میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے منصوبوں کے لیے 180 ارب روپے، پاور ڈویزن کے منصوبوں کے لیے 175 ارب روپے، کابینہ ڈویزن کے منصوبوں کے لیے 75 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
پی ایس ڈی پی میں ہائیر ایجوکیشن، ریلوے، دفاع، تعلیم اور دیگر شعبوں کے منصوبوں کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔
مختص رقم استعمال ہو گی؟
پلاننگ کمیشن کے سابق وفاقی سیکریٹری فضل اللہ قریشی کا کہنا ہے کہ نئے مالی سال کے لیے بڑا ترقیاتی بجٹ مختص کرنے کے سیاسی مقاصد ہیں اور یہ سب کو خوش رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فضل اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں کوئی انقلابی اقدام نظر نہیں آتا۔
ان کے بقول نئے مالی سال میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے گئے 1500 ارب روپے میں سے 50 فی صد بھی مشکل سے خرچ ہو پائیں گے۔
فضل اللہ قریشی کے مطابق یہ حقیقت بجٹ پیش کرنے والوں کو بھی معلوم ہے۔ تاہم بجٹ پیش کرتے ہوئے سیاسی مصلحت کے تحت بڑے ترقیاتی فنڈز کا اعلان کرنا کوئی نئی بات نہیں، ماضی میں بھی ایسا ہوتا آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی لیے جب بھی مالی مشکلات پیدا ہوتی ہیں یا ٹیکس جمع کرنے کا ہدف پورا نہیں ہو پاتا تو سب سے پہلے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ہوتی ہے۔
اس کے لیے گزشتہ بجٹ میں مختص کیے گئے ترقیاتی پروگرام کی مثال بھی دی جا سکتی ہے۔ 30 جون 2024 کو ختم ہونے والے مالی سال 24-2023 کے بجٹ میں قومی اسمبلی نے وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 950 ارب روپے منظور کیے تھے۔
تاہم وزارتوں، ڈویژنز اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کر کے وفاقی ترقیاتی پروگرام بنانے والی اینیوئل پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی ) نے اس میں کٹوتی کر دی تھی۔
ای پی سی سی کے دستیاب ڈرافٹ کے مطابق 30 جون کو ختم ہونے والے مالی سال کے لیے منظور وفاقی ترقیاتی بجٹ میں مالی مشکلات کا جواز بنا کر 204 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی تھی۔
بعد ازاں وزارت خزانہ نے بھی اس میں سے 29 ارب روپے کم کیے اور ترقیاتی بجٹ 950 ارب سے کم ہو کر 717 ارب روپے رہ گیا۔
ای پی سی سی کے ڈرافٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کے 717 ارب کے باقی بچنے والے وفاقی ترقیاتی پروگرام میں سے 30 مئی 2024 تک 487 ارب روپے جاری کیے گئے تھے۔
جاری کردہ رقم بھی پوری خرچ نہیں ہوئی اور اس میں سے 379 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیے گئے۔
فیصلہ تبدیل کیوں ہوا؟
معاشی امور کور کرنے والے سینئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ جنوری میں قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) نے فیصلہ کیا تھا کہ نئے مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں صوبائی منصوبوں کو شامل نہیں کیا جائے گا۔ سندھ اور خیبرپختونخوا کے وزرائے اعلیٰ نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے بھی وفاقی ترقیاتی پروگرام کا حجم 1221 ارب روپے تجویز کیا تھا مگر بجٹ سے ایک دو روز قبل این ای سی کے اجلاس میں یہ فیصلہ تبدیل کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبائی منصوبوں کے ساتھ ارکان قومی اسمبلی کے لیے 75 ارب ایس ڈی جیز اسکیموں کے لیے رکھے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سینئر صحافی خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ کے لیے مختص رقم میں جس طرح اضافہ کیا گیا وہ درست اقدام نہیں۔ کیوں کہ ترقیاتی منصوبوں سے متعلق فیصلے ان کی کیپیسٹی اور قابلِ عمل ہونے کی بنیاد پر ہونے چاہییں۔
ان کے بقول ارکان قومی اسمبلی کو سیاسی بنیادوں پر منصوبوں کے مد میں پیسے دینا وسائل ضائع کرنے جیسا ہے۔ پی ڈی ایم حکومت میں بھی ہر رکن کو 50 کروڑ روپے اسکیموں کے لیے دیے گئے جب کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں بھی لگتا ہے کہ ہر رکن کو 50 کروڑ روپے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ملیں گے۔
خلیق کیانی کے مطابق نئے مالی سال کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف بہت زیادہ رکھا گیا ہے جو پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس لیے آمدن میں کمی یا دیگر اسباب سے پیدا ہونے والی مالی مشکلات کے باعث سب سے پہلے ترقیاتی بجٹ ہی میں کٹوتی کی جائے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آنے والی حکومتیں گزشتہ حکومتوں میں شروع کیے گئے منصوبے بند کرتی آئی ہیں۔ اگر اس پر کوئی جائزہ کمیٹی قائم ہو تو بہت تلخ حقائق سامنے آئیں گے۔