|
پاکستان میں حالیہ چند ہفتوں کے دوران نئی گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے جب کہ ماہرینِ معیشت اس کمی کو مختلف زاویوں سے دیکھ رہے ہیں۔
پاکستان میں اسمبل ہونے والی گاڑیوں میں سب سے بڑی کمی جنوبی کوریا کی کار ساز کمپنی ‘کیا’ نے کی ہے۔ کمپنی نے کیا اسٹونک کی قیمت میں 15 لاکھ روپے کمی تھی جس کے بعد گاڑی کی قیمت 62 لاکھ سے 47 لاکھ 67 ہزار روپے ہو گئی ہے۔
اس کے بعد فرانسیسی کار ساز کمپنی ‘پوژو’ نے بھی اپنی گاڑیوں کی قیمت میں ساڑھے تین لاکھ روپے تک کی کمی کی ہے۔
کمپنیوں کی جانب سے گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کی وجہ تو نہیں بتائی گئی البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی گرتی ہوئی سیلز پر کمپنیاں کافی پریشان ہیں اور صارفین کو متوجہ کرنے کے لیے آفرز پیش کر رہی ہیں۔
ماہرینِ معیشت کے مطابق ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بلند شرح سود کی وجہ سے صارفین نئی گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ اس رجحان کی وجہ سے گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں مشکلات کا شکار تھیں اور انہیں نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔
گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی کی وجہ حالیہ عرصے میں حکومت کی جانب سے چالیس لاکھ سے زائد مالیت کی گاڑی پر جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اضافہ بھی ہے۔
حکومت نے چالیس لاکھ مالیت سے زائد کی گاڑی پر جی ایس ٹی 18 سے بڑھا کر 25 فی صد کر دیا ہے۔
کن گاڑیوں کی قیمت کم ہوئی؟
فرانسیسی کمپنی ‘پوژو’ نے اپنی گاڑی ‘پوژو 2008’ کی قیمت میں ساڑھے تین لاکھ روپے تک کمی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس گاڑی کی قیمت 69 لاکھ 50 ہزار تھی جو اب کم کر کے 66 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
کمپنی نے یہی گاڑی آسان اقساط پر حاصل کرنے والوں کے لیے پانچ لاکھ روپے کی کمی کی ہے، یعنی کمپنی جو گاڑی پہلے قسطوں پر 75 لاکھ 50 ہزار روپے میں دی جا رہی تھی اس کی قیمت اب 70 لاکھ 50 ہزار کر دی گئی ہے۔
اسی طرح سوزوکی کمپنی نے اپنی گاڑی سوئفٹ کی قیمت میں 13 فی صد کمی کی ہے اور یہ 54 لاکھ 29 ہزار سے 47 لاکھ 19 ہزار تک آگئی ہے۔
اس کے علاوہ ٹویوٹا کمپنی نے اپنی گاڑی یاریس 1.3 کی قیمت میں تین فی صد کمی کی ہے جس کے بعد اب اس کی قیمت 48 لاکھ 99 ہزار سے کم ہو کر 47 لاکھ 66 ہزار ہوگئی ہے۔
ہونڈا کمپنی نے سٹی 1.2 ویرینٹ میں تین فی صد کی کمی کی ہے اور اس کی قیمت 48 لاکھ 29 ہزار سے کم ہو کر 46 لاکھ 89 ہزار ہوگئی ہے۔
جی ایس ٹی کا اثر کس قدر ہوا؟
ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے 40 لاکھ روپے سے زائد کی گاڑیوں پر جی ایس ٹی کے اضافے کے فیصلے کے بعد گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ البتہ اس صورتِ حال میں بعض گاڑیوں کی خریداری میں اضافہ ہو گیا ہے۔
بتایا جا رہا ہے کہ گاڑیوں کی قیمتوں میں نمایاں کمی کے بعد بڑی تعداد میں صارفین نے شورومز کا رخ کیا ہے جب کہ کورین کمپنی ‘کیا’ نے اپنی گاڑی اسٹونک کی مزید بکنگ بند کر دی ہے۔
پاکستان آٹو شو کے سابق چیئرمین مشہود علی خان کے مطابق گزشتہ چند سال کے دوران لوگوں کی قوتِ خرید میں کمی اور بلند شرح سود کا اثر کار فنانسنگ میں بھی دیکھا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کمپنیوں نے اپنے ان ماڈلز کی قیمتیں کم کی ہیں جن کا مارکیٹ میں فیڈ بیک کم مل رہا تھا۔ اس وقت مارکیٹ سکڑ گئی ہے۔
ان کے بقول گزشتہ برس ایک لاکھ پانچ ہزار گاڑیاں بنائی گئی تھیں اور رواں برس یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی کم نظر آ رہی ہے۔ اگر یہ صورتِ حال اسی طرح جاری رہی تو کمپنیوں کا کام مزید کم ہوجائے گا۔
مشہود خان کے مطابق اس وقت مختلف کمپنیوں کی گاڑیوں کے مختلف ماڈلز میں سے ایک آدھ ویرینٹ ہی ایسا ہوتا ہے جو کمپنی کو چلا رہا ہوتا ہے۔ ہر ماڈل کا مارکیٹ میں رسپانس نہیں مل رہا اور صرف ایک ماڈل کی وجہ سے کمپنیاں اب تک چل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 25 فی صد جی ایس ٹی کے ساتھ گاڑیاں بنانے کی انڈسٹری کیسے چلے گی۔ اس میں بہتری صرف اسی صورت آسکتی ہے کہ لوکلائزیشن پر زور دیا جائے۔
پاکستان میں گاڑیوں کی زیادہ قیمت ہمیشہ سے مسئلہ رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ مقامی سطح پر گاڑیوں کا تیار نہ ہونا ہے۔
غیر ملکی کمپنیاں پاکستان میں پارٹس تیار کرنے کے بجائے بیرونِ ملک سے منگوا کر اسمبلنگ میں دلچسپی رکھتی ہیں جس میں ان کے منافع کی شرح ڈالر کی شرح کے ساتھ ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔
مشہود خان کہتے ہیں حکومت غیر ملکی آٹو میکرز کو ٹیکسز میں سہولت دے اور اس بات پر زور دے کہ آئندہ دو سے تین سال کے اندر وہ مقامی سطح پر پرزے بنائیں گے۔
ان کے بقول، پاکستان میں موجود پرانی کمپنیاں 20 سے 30 فی صد لوکل سامان بنوا رہی ہیں لیکن بعد میں آنے والی کمپنیاں سو فی صد سامان بیرونِ ملک سے منگوا رہی ہیں جس کی وجہ سے گاڑیاں مہنگی بھی ہیں اور ملک کو زرِ مبادلہ کے باہر جانے کا نقصان کا سامنا ہے۔
ہارون طاہر اسلام آباد میں کئی سالوں سے اپنا کاروبار کر رہے ہیں اور وہ چند سال بعد پرانی گاڑی فروخت کر کے نئی گاڑی خریدتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ایسا کرنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں گاڑی کی قیمتوں میں چند ہزار کا فرق آتا تھا لیکن پچھلے دو تین سالوں میں یہ فرق ہزاروں کے بجائے لاکھوں میں پہنچ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک عام 1300 سی سی گاڑی بیس سے تیس لاکھ کی رینج میں آتی تھی لیکن اب اس کی قیمت ستر سے اسی لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔
اسلام آباد میں گاڑیوں کی قیمتوں میں فرق کی وجہ سے سیلز میں کمی کے بارے میں ایک پرانی کاروں کے ڈیلر یوسف شاہ کہتے ہیں قیمتوں میں اتنی تیزی سے اضافے کی وجہ سے اب سیل پرچیز میں پچاس فی صد سے زائد کمی ہوچکی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چند سال پہلے تک یومیہ ایک سے دو گاڑیوں کی خرید و فروخت ہوجاتی تھی لیکن اب ہفتے میں ایک گاڑی بھی فروخت ہو جائے تو شکر ادا کرتے ہیں۔
پاکستان آٹو مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 23-2022 میں 1300 سی سی سے زائد کی 39 ہزار 919 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جب کہ مال سال 24-2023 میں اب تک 24 ہزار 217 گاڑیاں ہی فروخت ہو سکی ہیں۔
اسی ایک ہزار سی سی کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ جو 11 ہزار 255 یونٹ سے کم ہو کر پانچ ہزار 455 یونٹ پر آ گئی ہے۔
چھوٹی گاڑیوں کی فروخت میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور گزشتہ سال بکنے والی 85 ہزار 776 گاڑیوں کے مقابلے میں مالی سال 24-2023 میں 54 ہزار 89 گاڑیاں فروخت ہو سکی ہیں۔
اسی طرح ٹرکس اور بسز کی تعداد دیکھیں تو اس میں بھی نمایاں کمی ہوئی ہے۔ سال 2023 میں تین ہزار 382 ٹرکس اور بسز فروخت ہوئیں جن کی تعداد مالی سال 24-2023 میں صرف ایک ہزار 888 رہ گئی ہے۔
گاڑیوں کی طرح موٹرسائیکلوں کی فروخت میں بھی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ گزشتہ دو سالوں میں موٹرسائیکلوں کی قیمتیں بھی تقریباً دگنی ہوچکی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال فروخت ہونے والی 9 لاکھ 24 ہزار 703 موٹر سائیکلز کی تعداد کم ہو کر 8 لاکھ 33 ہزار 226 ہو گئی ہے۔