|
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے مشن، یوناما نے افغانستان میں ان پاکستانی فضائی حملوں کی چھان بین کا طالبہ کیا ہے جن کے بارے میں طالبان حکومت نے کہا ہے کہ ان میں عام شہریوں سمیت 46 لوگ ہلاک ہوئے تھے۔
اقوام متحدہ کے امدادی مشن برائے افغانستان، یوناما نے کہا ہے کہ اسے اس بارے میں مستند رپورٹس ملی ہیں کہ 24 دسمبر کو افغانستان کے صوبے پکتیکا میں پاکستانی ملٹری فورسز کے فضائی حملوں میں عورتوں اور بچوں سمیت درجنوں شہری ہلاک ہوئے تھے۔
ایجنسی نے ایک بیان میں کہا کہ ، ’’ بین الاقوامی قانون ملٹری فورسز پر یہ زمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ عام شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور یہ کہ جوابدہی کو یقینی بنانے کے لیے ایک تفتیشی کارروائی کی ضرورت ہے ۔‘‘
طالبان حکومت نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے ، جب کہ چھ دوسرے زخمی ہوئے جن میں سے بیشتر بچے تھے۔
پاکستان کے ایک سیکورٹی اہلکار نے بدھ کو اےایف پی کو بتایا تھا کہ’’ بمباری میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا ، اور کم از کم 20 عسکریت پسند ہلاک ہوئے تھے ۔ اس نے کہا کہ یہ دعوے کہ شہریوں کو نقصان پہنچا تھا ، بے بنیاد اور گمراہ کن ہیں۔‘‘
افغانستان کے سرحدی اور قبائلی امور کے وزیر نور اللہ نوری نے اس حملے کو ایک وحشیانہ، متکبرانہ حملہ قرار دیا ۔ جائے واقعہ کے دورےکے دوران انہوں نےکہا، ’’ یہ ناقابل قبول ہے اور اس کا جواب دیا جائے گا۔‘‘
پاکستانی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے حملوں کی تصدیق نہیں کی لیکن جمعرات کو ایک میڈیا بریفنگ میں بتایا : ہمارے سیکیورٹی کے عملے پاکستانیوں کو ٹی ٹی پی سمیت ، دہشت گرد گروپس سے محفوظ رکھنے کے لیے سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتے ہیں ۔‘‘
زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان کے ساتھ گفت وشنید کو اولیت دی ہے اور یہ کہ اسلام آباد کے خصوصی سفیر ، صادق خان عہدے داروں سے ملاقات کےلیے کابل میں تھے ، جہاں سیکیورٹی کے امور اور ٹی ٹی پی سمیت دہشت گرد گروپس کے بارے میں گفتگو ہوئی ۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کی خود مختاری کا احترام کرتا ہے اور ہم دہشت گردی کے خطرے سے مقابلے کے لیے افغانستان کے ساتھ ہمیشہ ڈائیلاگ اور باہمی اشتراک کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ افغانستان اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف حملوں میں استعمال ہونے سے روکے گا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک صحافی نے صوبائی دار الحکومت شرن کے ایک اسپتال میں متعدد زخمی بچوں کودیکھا جن میں سے ایک کو ڈرپ لگ رہی تھی اور دوسرے کے سر پر پٹی بندھی تھی۔
طالبان اتھارٹی کی جانب سے ترتیب دیے گئے ایک پریس ٹرپ میں اے ایف پی کے نامہ نگاروں نے پاکستانی سرحد سے لگ بھگ 20 سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تین مقامات پر چار کچی عمارتوں کو ملبے کا ڈھیر بنے دیکھا۔
اے ایف پی نے متعدد رہائشیوں سے بات کی جنہوں نے بتایا کہ حملے شام دیر گئے ہوئے تھے اور ان سے دیہاتوں میں دروازے اور کھڑکیاں ٹوٹ گئیں جب کہ یہ حملے گھروں اور ایک اسلامی اسکول کی تباہی کا باعث بنے۔
متعدد رہائشیوں نے حملوں میں مکانات کو ہدف بنائے جانے کے بعد ملبے سے لاشیں نکالنے، اور متعدد خاندانوں کے افراد کی ہلاکت کی رپورٹ دی ۔
ٹی ٹی پی نے گزشتہ ہفتے افغانستان کی سرحد کے نزدیک ایک فوجی مضافاتی چوکی پر ایک حملے کادعویٰ کیا تھا جس میں پاکستان کے بقول 16 فوجی ہلاک ہوئے تھے ۔
یہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی تنازعوں کی تازہ ترین لہر ہے ، جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی جاری ہے، جس میں 2021 میں طالبان حکومت کی جانب سے اقتدار پر قبضے کے بعد سے اضافہ ہوا ہے ۔
اسلام آباد نے کابل کے حکام پر عسکریت پسند جنگجوؤں کو پناہ دینے اور انہیں پاکستانی سرزمین پر بلا روک ٹوک حملہ کرنے کی اجازت دینے کا الزام عائد کیا ہے — کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔