|
اسلام آباد — پاکستان کے قبائلی ضلع کرم میں امن و امان کی صورتِ حال کے باعث ٹل-پاڑہ چنار مرکزی شاہراہ سمیت دیگر رابطہ سڑکیں دو ماہ سے بند ہیں جس کے باعث معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
مقامی قبائلی رہنما اور سماجی کارکن خبردار کر رہے ہیں کہ اگر راستے جلد نہ کھولے گئے تو ضلع کرم ایک مکمل انسانی المیے کی طرف بڑھ سکتا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے مطابق 12 اکتوبر سے اب تک مناسب علاج نہ ملنے اور ادویات کی عدم فراہمی کے باعث 29 بچے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے دی جانے والی ادویات بھی ناکافی ہیں، اسپتالوں میں مریضوں اور زخمیوں کو ادویات کی عدم دستیابی کے باعث معیاری علاج نہیں مل رہا۔
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 130 تک پہنچ گئی تھی۔
ضلع کرم میں امن و امان کے لیے قائم امن جرگے نے فریقین میں جنگ بندی تو کرا دی لیکن دو ماہ سے بند راستے کھلوانے میں بدستور ناکام ہے۔
علاقہ عمائدین کے مطابق شہر میں اشیائے خورو نوش کی کمی ہے اور سخت سرد موسم میں ایل پی جی، لکڑی اور تیل کا ذخیرہ مکمل ختم ہو گیا ہے۔ ادویات کی کمی اور شدید سردی کے باعث اب تک کئی اموات ہو چکی ہیں۔
دو ماہ سے محصور شہریوں کو ادویات کی فراہمی اور زخمیوں کی منتقلی کے لیے بدھ کو فلاحی ادارے ایدھی کی ایئر ایمبولینس پاڑہ چنار کے ایئر پورٹ پر پہنچی اور زخمیوں کو پشاور منتقل کرنے کا آغاز کیا گیا۔
پاکستان ہلال احمر کے صوبائی چیئرمین حبیب ملک اورکزئی کہتے ہیں کہ رابطہ سڑکیں بند ہونے کی وجہ سے کرم میں پسنے والے تمام قبائل کی زندگی بہت مشکل ہو چکی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہلالِ احمر اپنی استعداد کے مطابق بلا تفریق سب کی امداد کر رہا ہے اور عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے تین ہزار سے زائد خاندانوں کو رہائش اور کھانا فراہم کیا جا رہا ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کے وسائل محدود ہیں اور متاثرین کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے ہلالِ احمر نے گورنر خیبر پختونخوا کے ذریعے عالمی امدادی اداروں سے بھی ادویات اور خوراک کی فراہمی کی اپیل کی ہے۔
حبیب ملک اورکزئی کہتے ہیں کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی اور صوبائی ادارے کو چاہیے کہ وہ اپنی امدادی سرگرمیاں شروع کریں کیوں کہ ان کے پاس وسائل موجود ہیں اور راستوں کی بندش اور محدود وسائل کے باعث ہلالِ احمر اپنی امدادی سرگرمیوں کو بڑھانے سے قاصر ہے۔
حبیب ملک اورکزئی نے کہا کہ وہ خود بھی کرم ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ امن کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہوں۔
کرم سے تعلق رکھنے والے سابق وفاقی وزیر ساجد طوری کہتے ہیں کہ امن جرگہ ڈیڈ لاک کا شکار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایسے مطالبات کیے جا رہے ہیں جو زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے قابلِ عمل نہیں ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ کرم کے قبائلی لوگوں میں لڑائی جھگڑے کے واقعات کافی عرصے سے ہو رہے ہیں۔ تاہم حالیہ واقعات میں تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے کالعدم شدت گروہ بھی ملوث ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ایسے ماحول میں جب ریاست دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں کرم کے عوام کی حفاظت میں ناکام رہی ہے اسلحے کی حوالگی کی شرط رکھنا بہت غیر مناسب ہے۔
ساجد طوری نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ پہلے راستے کھلوائے، زخمیوں اور مریضوں کو منتقل کریں تاکہ اعتماد بحال ہو جس کے بعد اسلحے کی حوالگی پر بھی بات ہو سکتی ہے۔
ڈپٹی کمشنر ضلع کرم جاوید محسود کا کہنا ہے کہ کوہاٹ میں ملتوی ہونے والا گرینڈ جرگہ دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے اور مشکلات میں کمی لانے اور راستے کھولنے کے لیے اقدامات جاری ہے۔
ضلع کرم میں امن و امان کی صورتِ حال کے باعث تین تحصیلوں میں انسدادِ پولیو مہم کو بھی ملتوی کر دی گئی ہے۔
ڈسٹر کٹ ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر قیصر بنگش کے مطابق پولیو مہم کو سیکیورٹی خدشات کی بنا پر ملتوی کیا گیا ہے اور جب تک حالات معمول پر نہیں آتے ہیں تب تک مہم کو چلانا ممکن نہیں ہے۔
مرکزی شاہراہ کی بندش سے رابطے منقطع
خیبر پختونخوا کے ضلع کرم جہاں پانچ لاکھ سے زائد افراد آباد ہیں کو مرکزی شاہراہ ٹل۔پاڑہ چنار جو علاقے کی زندگی کی بنیادی لائن ہے، 12 اکتوبر کو ایک المناک حملے کے بعد سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بند کی گئی تھی۔
شاہراہ کی بندش نے کرم میں زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کیا ہے۔ ضروری اشیا کی فراہمی مکمل طور پر معطل ہے جس کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
کرم کے شہریوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے اور گندم، چاول اور دیگر بنیادی اشیا کی فراہمی بند ہونے سے دکانوں میں ذخیرہ ختم ہو چکا ہے۔ اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں اور غریب عوام بنیادی خوراک سے محروم ہو رہے ہیں۔
ایندھن کی عدم دستیابی نے نقل و حرکت کو مفلوج کر دیا ہے۔ اسکول بند ہو چکے ہیں، اسپتال مریضوں کو منتقل کرنے میں ناکام ہیں۔
ضلع کے مزدور جو دیگر علاقوں میں کام کے لیے سفر کرتے تھے، آمد و رفت کی بندش کے باعث بے روزگار ہو چکے ہیں۔ طلبہ کی تعلیم بھی شدید متاثر ہے اور اسکول بند ہونے سے ان کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق اسپتال اور کلینک ضروری ادویات سے محروم ہیں۔ مریضوں کا علاج ممکن نہیں ہو رہا اور پیچیدہ بیماریوں کے لیے پشاور جانے کا راستہ بند ہونے سے جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔