تہران اور اسلام آباد کے درمیان جون 2009 میں پائپ لائن معاہدے پر دستخط ہوئے تھے۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو یومیہ ایک ارب کیوبک فٹ تک گیس کی فراہمی کی جانی تھی۔ پاکستان نے اپنی سرزمین پر اس پائپ لائن کی تعمیر شروع نہیں کی۔ اطلاعات ہیں کہ اس منصوبے میں تاخیر پر اسلام آباد کو 18 ارب ڈالر تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ |
اسلام آباد — پاکستان نے بین الاقوامی ثالثی عدالت میں ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کے معاملے پر نمائندگی کے لیے دو امریکی لا فرمز کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔
ان لا فرمز کی خدمات پاکستان کو اپنی طرف کے گیس پائپ لائن معاہدے کو مکمل کرنے یا بھاری جرمانہ ادا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ایران کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے حاصل کی گئی ہیں۔
تہران اور اسلام آباد نے جون 2009 میں سرحد پار پائپ لائن کے لیے گیس کی خرید و فروخت کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے تحت ایران کے ساؤتھ پارس فیلڈ سے توانائی کے بحران کا شکار پاکستان کے لیے یومیہ ایک ارب کیوبک فٹ تک گیس کی فراہمی کی جائے گی۔
تاہم پاکستان نے امریکی پابندیوں سے بچنے کے لیے اپنی سر زمین پر پائپ لائن کی تعمیر شروع نہیں کی۔
رواں سال اگست میں پاکستانی میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ تہران نے پیرس میں قائم ثالثی عدالت سے رجوع کرنے سے قبل اسلام آباد کو حتمی نوٹس دیا ہے۔
پاکستان میں اٹارنی جنرل کے دفتر کے ایک اعلیٰ ترین ذریعے نے وائس آف امریکہ کو بدھ کو تصدیق کی ہے کہ پاکستان نے قانونی فرمز کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔
اطلاعات ہیں کہ اس منصوبے میں تاخیر پر اسلام آباد کو 18 ارب ڈالر تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پس منظر
سال 2011 میں ایران نے اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنی طرف 900 کلومیٹر طویل پائپ لائن کی تعمیر مکمل کر لی ہے۔
اس اعلان کے دو سال بعد اس وقت کے ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے ایرانی سر زمین پر سات ارب ڈالر کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
بعد ازاں 2014 میں پاکستان نے آئندہ سال یعنی 2015 سے شروع ہونے والے یومیہ 10 لاکھ ڈالر تک کے جرمانے کی ادائیگی سے بچنے کے لیے اس منصوبے میں 10 سال کی توسیع کا مطالبہ کیا۔
جس کے بعد مارچ 2024 میں جب توسیع کی مدت اختتام کو پہنچنے کے قریب تھی تو اس وقت کی پاکستان کی نگراں حکومت نے صوبۂ بلوچستان کے شہر گوادر میں ایران کے ساتھ اپنی سرحد سے پائپ لائن کے 80 کلومیٹر طویل حصے کی تعمیر کی منظوری دی۔ تاہم اس تعمیر کا آغاز ابھی ہونا باقی ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستان کے وزیرِ پیٹرولیم مصدق ملک نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ بین الاقوامی پابندیاں پائپ لائن کے آگے بڑھنے کی راہ میں حائل ہیں۔
انہوں نے کہا تھا کہ “یہ انتہائی پیچیدہ معاملہ ہے اور اس میں بین الاقوامی پابندیاں شامل ہیں۔”
مصدق ملک نے ان رپورٹس کو مسترد کردیا تھا کہ ملک کو 18 ارب ڈالر تک کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن انہوں نے اس بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں بتائے تھے۔
وزیرِ پیٹرولیم کے اس بیان کے کچھ گھنٹوں بعد امریکی محکمۂ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے تہران کے ساتھ کاروبار کرنے کے خلاف واشنگٹن کی وارننگ کو دہرایا تھا۔
انہوں نے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا تھا کہ ہم ایران کے خلاف اپنی پابندیاں جاری رکھیں گے۔ ہم ایران کے ساتھ تجارتی معاہدے پر غور کرنے والے کو مشورہ دیتے ہیں کہ اس کے ممکنہ اثرات سے باخبر رہے۔
واضح رہے کہ ایران اپنے جوہری اور بیلسٹک میزائل پروگرامز کی وجہ سے امریکی پابندیوں کی زد میں ہے۔
پاکستان کی جانب سے بھی بعض اوقات یہ اشارہ دیا گیا کہ وہ امریکی وارننگ کی خلاف ورزی کرے گا لیکن اس حوالے سے کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔
اگرچہ پاکستان اپنی سرحد کے اندر پائپ لائن تعمیر کر سکتا ہے۔ لیکن ایران سے گیس خریدنے کے لیے اسے واشنگٹن سے پابندیوں میں چھوٹ حاصل کرنا ہوگی اور اب تک اسلام آباد نے یہ چھوٹ حاصل نہیں کی ہے۔