مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ایران نے ہفتے کو نئے ہتھیاروں کی نقاب کشائی کی ہے جس میں مقامی طور پر بنایا گیا ‘ارمان اینٹی بیلسٹک میزائل سسٹم’ اور ‘ازرخش’ نام کا فضائی دفاعی نظام شامل ہے۔
ہفتے کے روز منظر عام پر لائے گئے عسکری نظاموں میں “ارمان میزائل سسٹم” کے بارے میں ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ‘ارنا’ نے کہا کہ یہ 120 سے 180 کلومیٹر کے فاصلے پر بیک وقت چھ اہداف کا سامنا کر سکتا ہے۔
“ازرخش میزائل سسٹم 50 کلو میٹر کی رینج تک چار میزائلوں کے ساتھ اہداف کی شناخت کر کے انہیں تباہ کر سکتا ہے۔”
تہران کا یہ اعلان اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ اور مشرقِ وسطیٰ میں بڑھتے ہوئے تناؤ کے وقت سامنے آیا ہے۔
غزہ کی محصور پٹی گزشتہ سال سات اکتوبر کو فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل کے جنوب میں حملوں کے بعد سے اسرائیلی فوجی حملوں کی زد میں ہے اور شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
یمن کے ایران کے حمایت یافتہ حوثی عسکریت پسندوں نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے بحیرۂ احمر میں امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل سے منسلک جہازوں پر حملے کیے ہیں۔
حوثیوں کے حملوں کے جواب میں، امریکہ نے یمن کے اندر کے مقامات کے ساتھ ساتھ عراق اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ گروپوں کی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اس کے نتیجے میں، شام اور عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے کیے گئے ہیں۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق اسرائیل نے شام میں ایرانی اہداف کو بھی نشانہ بنایا ہے جب کہ اسرائیل اور لبنان کے ملیشیا گروپ حزب اللہ کے درمیان بھی چھڑپیں جاری ہیں۔
خبر رساں ادارے ‘ایسو سی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اسرائیل اور حزب اللہ کا تنازع اس ہفتے مزید بڑھ گیا، جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ روزانہ کی جھڑپیں ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہیں۔
حال ہی میں لبنان سے فائر کیا گیا ایک راکٹ شمالی اسرائیلی قصبے صفد پر گرا تھا جس کے نتیجے میں ایک 20 سالہ خاتون فوجی ہلاک اور کم از کم آٹھ افراد زخمی ہوئے تھے۔
اسرائیل کے جوابی فضائی حملے میں جنوبی لبنان میں کم از کم 10 افراد ہلاک ہوئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک شامی خاتون، اس کے دو بچے، ایک دوسرے خاندان کے چار افراد اور حزب اللہ کے تین جنگجو شامل ہیں۔
حزب اللہ کے پاس کیا ہتھیار ہیں؟
حزب اللہ عرب دنیا کی سب سے اہم پیرا ملٹری فورس ہے۔ ایک مضبوط اندرونی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ گروپ کے پاس بڑے ہتھیاروں کا ذخیرہ بھی ہے۔
ایران کی حمایت سے کام کرنے والے ملیشیا گروپ کے جنگجوؤں کو شام کے 13 سالہ تنازع کے دوران لڑائی کا تجربہ ہے۔
اس کے جنگجوؤں نے شام میں خانہ جنگی کے دوران طاقت کے توازن کو حکومتی افواج کے حق میں کرنے میں مدد کی تھی۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ان کے گروپ کے پاس 100,000 جنگجو ہیں۔ تاہم دوسرے اندازوں کے مطابق اس کے فوجیوں کی تعداد نصف سے بھی کم ہے۔
تل ابیب چاہتا ہے کہ حزب اللہ اپنی ‘ایلیٹ رضوان فورس’ کو اسرائیلی سرحد سے ہٹا لے تاکہ شمالی قصبوں اور دیہاتوں سے بے گھر ہونے والے دسیوں ہزاروں اسرائیلی اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔
اسرائیل کی فوجی قوت
اسرائیل کی فوج کو طویل عرصے سے امریکہ کی حمایت حاصل ہے، جس میں سالانہ 3.3 ارب ڈالر کی فنڈنگ اور میزائل دفاعی ٹیکنالوجی کے لیے 500 ملین ڈالر دیے جاتے ہیں۔
اسرائیل وسیع تر مشرقِ وسطیٰ میں سب سے زیادہ مسلح ممالک میں سے ایک ہے۔ اس کی فضائی قوت میں جدید امریکی F-35 لڑاکا طیارے شامل ہیں۔ میزائل دفاعی بیٹریاں، امریکی ساختہ پیٹریاٹ میزائل، دفاعی نظام آئرن ڈوم شامل ہیں۔
اس کے علاوہ اسرائیل کے پاس بکتر بند پرسنل کیریئر اور ٹینک ہیں۔ ڈرونز اور دیگر ٹیکنالوجی کا ایک بیڑا ہے جو گلیوں میں ہونے والی لڑائی کی صورت میں مدد کے لیے دستیاب ہے۔
ایک برطانوی تھنک ٹینک ‘انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار اسٹرٹیجک اسٹڈیز’ کے مطابق اسرائیل کے 170,000 فوجی عام طور پر فعال ڈیوٹی پر ہیں اور اس نے جنگ کے لیے 360,000 ریزروسٹوں کو بلایا ہے جو کہ اس کی صلاحیت کا تین چوتھائی ہے۔
طویل عرصے سے اسرائیل نے اپنے غیر اعلانیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو برقرار رکھا ہوا ہے۔
اس خبرمیں شامل معلومات خبر رساں اداروں ‘اے پی’ اور ‘رائٹرز’ سے لی گئ ہیں۔