|
ویب ڈیسک—ایران کے ایک سینئر عہدے دار کا کہنا ہے کہ تہران نے خلیج کی عرب ریاستوں کو خبردرا کر دیا تھا کہ اگر انہوں نے اپنی فضائی حدود یا اڈے ایران کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت دی تو یہ کسی صورتِ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ایرانی عہدے دار نے ایسے وقت میں یہ تبصرہ کیا ہے جب ایران کے وزیرِ خارجہ عباس عراقچی بدھ کو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کا دورہ کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتہ ایران کے اسرائیل پر میزائل حملے کے بعد سے اسرائیل کے ردِ عمل کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں جس میں عرب ریاستوں کا کردار بھی زیرِ بحث ہے۔
سینئر ایرانی عہدے دار نے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ایران نے خلیجی ریاستوں پر واضح کر دیا تھا کہ وہ ایران کے خلاف اپنی فضائی حدود یا اڈے استعمال نہ ہونے دیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ تمام خلیجی ممالک کا مشترکہ فیصلہ تصور کیا جائے گا۔
رائٹرز کے مطابق یہ گفتگو گزشتہ ہفتے قطر میں ہونے والی ایشیا کانفرنس کی راہداریوں میں ہوئی تھی جب خلیجی ریاستوں نے تہران کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازع میں غیر جانب دار رہیں گے۔
ایرانی عہدے دار کا کہنا ہے کہ خلیجی ریاستوں کو یہ پیغام خطے میں استحکام کے لیے اسرائیلی کے خلاف علاقائی اتحاد اور یکجہتی پر زور دینے کے لیے دیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ عرب ممالک پر واضح کر دیا گیا تھا کہ اسرائیل کو خلیجی ممالک کی فضائی حدود یا ہوائی اڈوں کے استعمال کی اجازت قابلِ قبول نہیں ہوگی۔
بدھ کو امریکہ کے صدر جو بائیڈن اور اسرائیل کے وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ بھی متوقع ہے۔
اس معاملے سے آگاہ ایک شخص نے بتایا ہے کہ اس گفتگو میں ممکنہ طور پر ایران پر حملے کا منصوبہ بھی زیرِ بحث آئے گا۔
صدر بائیڈن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر وہ اسرائیل کی جگہ پر خود رکھ کر سوچیں تو ایران کی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنانے کے متبادل پر غور کریں گے۔
بائیڈن ایران کی جوہری تنصیبات پر حملوں کی بھی مخالفت کرچکے ہیں۔
’رائٹر‘ سے گفتگو کرتے ہوئے ایرانی عہدے دار کا کہنا تھا کہ خلیجی ممالک کے ساتھ بات چیت میں یہ ایشو زیرِ بحث نہیں آیا کہ اگر ایران کی تیل کی پیداوار کسی کشیدگی کی وجہ سے کم ہوتی ہے تو خلیجی ممالک اپنی پیداوار بڑھائیں گے یا نہیں۔
یہ رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہے۔