|
شام کے نئے حکمرانوں نے کچھ غیر ملکی جنگجوؤں کو ملک کی مسلح افواج میں شامل کیا ہے جن میں ایغور، ایک اردنی اور ایک ترک شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ وزارت دفاع کی طرف سے اتوار کے روز اعلان کی جانے والی تقریباً 50 فوجی تعیناتیوں میں سے کم از کم 6 غیر ملکیوں کے حصے میں آئی ہیں۔
تاہم، رائٹرز آزادانہ طور پر ان نئی تقرریوں کے لیے منتخب کیے گئے افراد کی قومیت کی تصدیق نہیں کر سکا۔
نئے حکمرانوں کی طرف سے کئی جہادیوں کو سینیئر پوزیشنوں سمیت سرکاری ذمہ داریاں دینے کا اقدام کچھ غیر ملکی حکومتوں اور شامی شہریوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جو نئی انتظامیہ کے ارادوں سے خائف ہیں۔
عبوری حکومت کی طرف سے یہ اقدام ان وعدوں کے باوجود کیا گیا ہے جس میں انہوں نے اسلامی انقلاب کو برآمد نہ کرنے اور شام کے بڑے اقلیتی گروہوں سے رواداری کے ساتھ حکومت کرنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق شامی حکومت کے ترجمان نے ان تقرریوں کے پیچھے سوچ پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
واضح رہے کہ شام میں 13 سالہ خانہ جنگی کے شروع میں ہزاروں غیر ملکی سنی مسلمان شام کے باغیوں میں شامل ہوئے تھے تاکہ بشار الاسد کی حکمرانی اور ان کی حمایت کرنے والی ایران کے حمایت یافتہ شیعہ ملیشیاؤں کے خلاف لڑ سکیں۔
ان کی شمولیت سے اس تنازعے کو فرقہ وارانہ رنگ مل گیا۔
کچھ غیر ملکی جنگجوؤں نے اپنے مسلح گروپ بھی بنائے جب کہ دیگر نے داعش جیسی موجود تنظیموں میں شمولیت اختیار کی۔ داعش نے اس دور میں عراق اور شام میں تباہی مچائی تھی جب اس نے اپنی نام نہاد خلافت کے قیام کا اعلان کیا تھا۔
بعد ازاں, داعش کو امریکہ اور ایران کی حمایت یافتہ افواج کے ہاتھوں شکست کا سامنا رہا۔
غیر ملکی جہادیوں کے دیگر گروہوں نے باغی گروپ ہیت تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) میں شمولیت اختیار کی۔ ایچ ٹی ایس کے مخفف سے پہچانے جانے والے اس گروپ نے القاعدہ اور داعش سے اپنے سابقہ روابط کو توڑنے کا اعلان کئی برس پہلے کر دیا تھا۔
اس کے بعد ایچ ٹی ایس نے القاعدہ اور داعش کے خلاف خونریز لڑائیاں لڑیں۔
اس ماہ کی اٹھ تاریخ کو گروپ نے برق رفتار پیش قدمی کرتے ہوئے اسد حکومت کو گرا دیا۔
ہیت تحریر الشام کے رہنما احمد الشرع شام کے ڈی فیکٹو یعنی عملی طور پر حکمران ہیں۔ انہوں نے اپنے گروپ کو شامی بنانے اور اعتدال پسندی کی مہم کے ایک حصے کے طور پر درجنوں غیر ملکی جہادی جنگجوؤں کو نکال دیا ہے۔
اتوار کو نشر کیے گئے بیان میں، الشرع نے کہا کہ نئے شام کو “گروہوں اور ملیشیاؤں کی ذہنیت سے نہیں چلایا جا سکتا”۔
جہادیوں کی فوج میں تقرری کے حوالے سے ایک ایچ ٹی ایس کے ذریعہ نے رائٹرز کو بتایا کہ ان کی شمولیت اسد حکومت کی جابرانہ حکومت کے خلاف جدو جہد میں ان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کا ایک چھوٹا سا اظہار ہے۔
ایک ذریعہ نے رائٹرز کو بتایا کہ چینی ایغور عسکریت پسند عبدالعزیز داؤد خدابردی کو جو شام میں علیحدگی پسند ترکستان اسلامک پارٹی فورسز کے کمانڈر ہیں بریگیڈیئر جنرل مقرر کیا گیا ہے۔
سابق فوجی عہدے داروں کی سرکاری رہائش گاہوں سے بے دخلی
دریں اثنا، شام کے معزول صدر بشار الاسد کے ماتحت خدمات انجام دینے والے فوجی افسران کے اہل خانہ کو دمشق کے باہر ایک کمپاؤنڈ میں فراہم کی گئی مراعات یافتہ رہائش گاہوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔
اس اقدام کا مقصد سابق باغیوں، ان کے اہل خانہ، اور فاتح جنگجوؤں کو رہنے کے لیے مکانات فراہم کرنا ہے۔
معمدیت الشام کمپاؤنڈ نام کا رہائشی علاقہ ایک درجن سے زائد رہائشی عمارتوں پر مشتمل ہے اور اس میں سینکڑوں افراد رہائش پذیر ہیں۔
ایسے اور بھی کئی علاقے ہیں جو اسد کے دور حکومت میں افسران کو رہائش کے لیے دیے گئے تھے۔
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد اب سابق باغیوں کی شمولیت کے ساتھ فوج کی تنظیم نو کی جا رہی ہے اور اسد دور کے افسران کو غیر فعال کر دیا گیا ہے۔
جنگجو، جنہوں نے غریب، دیہی علاقوں میں برسوں گزارے ہیں اور طویل عرصے تک برسر اقتدار رہنے والی اسد حکومت کے حامیوں، دونوں کے لیے یہ اقدام ان کی قسمت کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کی منظر کشی کرتا ہے۔
رائٹرز نے علاقے میں موجود تین جنگجو، چار خواتین جو وہاں مقیم ہیں اور ایک مقامی اہلکار کے حوالے سے رپورٹ دی ہے کہ سابق دور کے افسران کے اہل خانہ کو جانے کے لیے پانچ دن کا وقت دیا گیا تھا۔
اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک سابق ملٹری انٹیلی جینس افسر کی بیوی، 38 سالہ بدور مقدّد نے کہا، “ہم اپنے بچوں کو دوسرے اسکولوں میں منتقل کریں گے، اور اپنی نئی زندگیوں کا آغاز کریں گے۔ میں بہت افسردہ ہوں، میرا دل ٹوٹ گیا ہے،اب یہ ہماری اور ہمارے بچوں کی زندگی ہے۔”
فرانس کے شام میں داعش کے اہداف پر حملے
فرانس نے منگل کو کہا کہ اس نے شام میں داعش کے اہداف کو فضائی کارروائی کا نشانہ بنایا۔
وزیر دفاع سیباسٹیئن لیکورنوو نے ایکس پلیٹ فارم پر ایکں پوسٹ میں بتایا کہ فضائی حملے اتوار کو کیے گئے تھے۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ حملوں کے اہداف کیا تھے۔
قبل ازیں، امریکہ نے بھی باغیوں کی جانب سے دمشق میں حکومت سنبھانے کے بعد شام میں داعش کے مختلف ٹھکانوں کے خلاف کارروائیاں کی تھیں۔
(اس خبر میں شامل بیشتر معلومات رائٹرز سے لی گئی ہیں)