|
اسلام آباد _ پاکستان اور ایران نے دوطرفہ تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور حکومتِ پاکستان پرامید ہے کہ آئندہ پانچ برس کے دوران ایران کے ساتھ تجارت کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے تین روزہ دورۂ پاکستان کے دوران پیر کو دونوں ملکوں نے تجارتی معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس وقت باہمی تجارت کا حجم دو ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ جس میں سے 1.4 ارب ڈالر کی مصنوعات ایران پاکستان کو بھجواتا ہے جب کہ پاکستان کی برآمدات 8.8 ملین کے قریب ہیں۔
کیا دس ارب ڈالر کی باہمی تجارت کا ہدف حقیقت پسندانہ ہے اور دونوں ملکوں کو یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے کیا اقدامات کرنا ہوں گے؟
ان سوالات کے جواب جاننے کے لیے وائس آف امریکہ نے معاشی ماہرین اور حکومتی ذمے دار سے بات کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی پابندیوں کے شکار ملک ایران کے ساتھ تجارت کے لیے حکومتِ پاکستان کو روایتی عمل سے بڑھ کر کام کرنا ہوگا جب کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کہتے ہیں سنجیدہ کوششوں سے ایران کے ساتھ تجارت کو بڑھا کر دس ارب ڈالر کا باہمی تجارت کا ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک چین، ایران اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں اور حکومت کی کوشش ہے کہ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تجارت کو بھی فروغ دیا جائے۔
لیکن سابق سیکریٹری تجارت و خزانہ یونس ڈاگھا کہتے ہیں ایران کے ساتھ تجارت میں تجارتی توازن پاکستان کے حق میں نہیں ہوگا۔ ان کے بقول ایران کی برآمدی اشیاء اسٹیل، پلاسٹک اور پٹرولیم مصنوعات کے مقابلے میں پاکستان صرف زرعی اجناس اور ٹیکسٹائل ہی برآمد کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خطے میں تجارت محدود ہے لیکن تجارت کے فروغ کے وسیع مواقع اور ذرائع موجود ہیں۔ ان کے بقول خطے کے ممالک کے ساتھ تجارت میں ٹیرف عائد نہیں ہوتے اور نقل و حمل کی لاگت بھی کم آتی ہے۔
یونس ڈاگھا نے کہا کہ ایرانی صدر کے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران پاک ایران سرحد پر اکنامک زون بنانے پر اتفاق ہوا ہے جس سے پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ پاکستان سرحدی علاقے میں موجود معدنیات کو ایران کی سستی توانائی کی مدد سے فائدہ اٹھا کر برآمدی مصنوعات بڑھا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس وزیرِ اعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے ہمراہ پاکستان ایران سرحدی گزرگاہ مند، پشین تجارتی منڈی اور بجلی ٹرانسمیشن لائن کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا۔
‘بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا ہوگا’
تاجر رہنما مرزا اختیار بیگ کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ دوطرفہ تجارت کا حجم 10 ارب ڈالر تک لے جانا ایک بڑا ہدف ہے جس کے لیے بینکنگ چینل کا آغاز، غیر قانونی تجارت کی روک تھام اور بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا ہوگا۔
مرزا اختیار بیگ کے مطابق ایران سے غیر قانونی تجارت سے مقامی صنعت کو نقصان پہنچ رہا ہے اور ملکی معیشت پر اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ پر کام نہیں کیا جب کہ بھارت اور ترکی ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے ذریعے اپنی دوطرفہ تجارت کو بڑھا رہے ہیں۔
تاجر رہنما نے مزید کہا کہ حکومتِ پاکستان کو بھی ہمسایہ ملکوں کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کو فروغ دینا چاہیے اور ایران کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کے لیے اشیاء کی فہرست کو بڑھانا چاہیے۔
سابق سیکریٹری خزانہ یونس ڈاگھا کے مطابق ایران کے ساتھ غیر قانونی تجارت کا حجم بھی دو ارب ڈالر کے لگ بھگ بتایا جاتا ہے جسے قانونی ذرائع میں منتقل کرنے سے موجودہ تجارتی حجم (دو ارب ڈالر) کو دگنا کیا جاسکتا ہے۔
بھارت و ترکی ایران سے تجارت کرسکتے ہیں تو پاکستان کیوں نہیں؟
امریکی محکمۂ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان پر تبصرے کرتے ہوئے کہا تھا کہ “اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ ایران سے تجارت کرنے والے ممالک پر ممکنہ پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ تاہم پاکستان خارجہ پالیسی کے تحت ایران کے ساتھ معاملات دیکھ سکتا ہے۔”
پاکستان کی حکومت پرامید ہے کہ تجارتی پابندیوں کے باوجود ہمسایہ ملک کے ساتھ تجارت میں اتنی گنجائش موجود ہے کہ دوطرفہ تجارتی حجم کو دس ارب ڈالر تک لے جایا جاسکتا ہے۔
عالمی پابندیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیرِ احسن اقبال نے کہا کہ ایران جن بین الاقوامی ضابطوں کے تحت دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کر رہا ہے اسی قسم کی گنجائش پاکستان کو بھی حاصل ہوگی۔
سابق سیکریٹری تجارت یونس ڈاگھا کے مطابق ایران کے ساتھ تجارت کے لیے ضروری ہوگا کہ امریکہ سے تجارتی پابندیوں پر چھوٹ حاصل کی جائے۔
ان کے بقول پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارت کے لیے عائد عالمی تجارتی پابندیوں کو سفارتی اور مرکزی بینک کی سطح پر حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جس طرح بھارت، ترکی اور آذربائیجان پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت کر رہے ہیں، اسلام آباد کو بھی واشنگٹن سے چھوٹ حاصل کرنی چاہیے۔
لیکن مرزا اختیار بیگ کہتے ہیں کہ بارٹر ٹریڈ پر تجارتی پابندیاں عائد نہیں ہوتیں۔ اس لیے دونوں ملکوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اشیاء کو بارٹر ٹریڈ کی فہرست میں شامل کریں۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت اور ترکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ تجارت کرسکتے ہیں تو پاکستان کے لیے بھی کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن اس کے لیے روایتی طریقوں سے ہٹ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔