|
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے حکومتِ سندھ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دو ماہ قبل قتل ہونے والے قوم پرست سیاسی کارکن ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی شفاف اور آزادانہ تحقیقات ممکن بنائی جائے۔
ایچ آر سی پی نے رواں برس فروری میں قتل ہونے والے ہدایت اللہ لوہار کے قتل کی تحقیقات کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ “ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ قتل ایک ٹارگٹ کلنگ ہے جس کا تعلق ہدایت اللہ لوہار کی قوم پرست سرگرمیاں تھیں۔”
ستاون سالہ ہدایت لوہار کو 16 فروری کو نصیر آباد میں موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کر کے اس وقت قتل کر دیا تھا جب وہ پڑھانے اسکول جا رہے تھے۔
پولیس نے قتل کے 16 روز بعد عدالتی حکم پر واقعے کی ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی۔ واقعے کو ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پولیس کی جانب سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
مقتول کی بیٹی سورٹھ لوہار کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد صوبے کے وسائل پر قبضے کے خلاف اور صوبائی حقوق کی پُر امن انداز میں بات کرتے تھے اور اسی بنیاد پر انہیں دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔
سورٹھ نے وائس آف امریکہ بتایا کہ ان کے والد کو سال 2017 اور 2023 میں سیکیورٹی اداروں نے بغیر کسی الزام یا ایف آئی آر کے تحویل میں لیا تھا۔ بعد ازاں شدید احتجاج کے بعد ان کی رہائی عمل میں آسکی تھی۔
انسانی حقوق کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ہدایت اللہ لوہار کے اہلِ خانہ کی گواہیوں اور واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کے باوجود ایف آئی آر درج کرنے میں پولیس کی ابتدائی ہچکچاہٹ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ ایس ایس پی قمبر شہداد کوٹ شکایت کنندہ کی درخواست پر ایف آئی آر درج کرنے سے گریز کرتا رہا اور اس امر سے ایسا لگتا ہے کہ پولیس دباؤ میں تھی۔
کمیشن کا خیال ہے کہ پولیس کسی کا نام لیے بغیر نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف سادہ ایف آئی آر بھی درج کرسکتی تھی لیکن ایسا نہ کیا گیا۔ اور قتل کے دو ہفتوں بعد دو مارچ کو واقعے کی ایف آئی آر درج کی گئی۔
مقتول کی بیٹی سسی لوہار نے کمیشن کو بتایا کہ وہ اپنے والد کے قتل کی عینی گواہ ہیں۔ حملے کے وقت وہ اپنے والد سے چند سو قدم کے فاصلے پر تھیں۔
سسی لوہار نے پولیس کو دی گئی درخواست میں بھی بتایا تھا کہ وہ قاتلوں کو باآسانی شناخت کرسکتی ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن کے سندھ کے وائس چئیرپرسن اور فیکٹ فائنڈنگ مشن کے رکن قاضی خضر حبیب نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہدایت لوہار کے قتل کے 16 روز بعد انڈس ہائی وے پر مسلسل احتجاج اور پھر عدالتی حکم کے بعد واقعے کی ایف آئی آر درج کی گئی۔ تاہم ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
ایس ایس پی قمبر شہدادکوٹ کلیم ملک نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہدایت لوہار پر یہ تیسری بار حملے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن تھانے کے انتہائی قریب ہونے کے باوجود بھی پولیس افسر کمیشن کو اس بارے میں کوئی تفصیلات بتانے سے گریزاں رہے۔
ایس ایس پی نے فیکٹ فائننڈنگ مشن کو کہا کہ ہدایت لوہار کی جبری گمشدگی ‘ماضی میں’ ہوئی تھی اور پولیس نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے بعد نئی تحقیقات شروع کرے گی۔
کمیشن کی رپورٹ پر صوبائی حکومت کا مؤقف لینے کے لیے وائس آف امریکہ نے کئی بار صوبائی وزیرِ داخلہ ضیا لنجار سے رابطے کی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے خبر کی اشاعت تک کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔
انسانی حقوق کمیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ لوہار کے دو بیٹوں سمیت قتل کے خلاف دھرنا دینے پر حراست میں لیے گئے مظاہرین کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے اور پرامن اجتماع کی آزادی کا حق استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔