|
کراچی _ ورلڈ بینک کی ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کُل بیرونی قرضہ 130 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے جو اس کی اوسط سالانہ برآمدات سے 352 فی صد زیادہ ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ قرضے میں ڈوبی پاکستانی معیشت کے لیے یہ صورتِ حال تشویش ناک ہے۔
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرونی قرضہ اُن اہم مسائل میں سے ایک ہے جو معیشت کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
قرضوں کا بہتر استعمال نہ کرنے پر ماہرین اسلام آباد کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آرہے ہیں اور اصرار کر رہے ہیں کہ قرضوں کی ادائیگی کو ممکن بنانے کے لیے جامع معاشی حکمتِ عملی ترتیب دے کر مستقل مزاجی سے اس پر عمل کرنا ہوگا۔
تجزیہ کار اور ماہر اقتصادیات عمار حبیب کے مطابق اسلام آباد کا بیرونی قرضہ صرف بارہ سالوں میں دگنا ہو گیا ہے جب کہ جی ڈی پی میں اسی عرصے کے دوران مسلسل کمی دیکھی جارہی ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں پاکستان کا قرضہ اس کی آمدن کے مقابلے میں تیزی سے بڑھا ہے۔
آمدن کے اس فرق کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔ پاکستان کے ذمے قرض کا اس وقت سب سے بڑا حصہ چین کا ہے جو اس کے کُل قرضوں کا تقریباً 22 فی صد یعنی 28 ارب ڈالر بنتا ہے۔
عمار حبیب کے مطابق پاکستان پر واجب الادا قرض کو آسان الفاظ میں اس طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ سال 2011 میں پیدا ہونے والے پاکستانی پر لگ بھگ 70 ہزار روپے کا قرضہ تھا جو اب بڑھ کر تین لاکھ 21 ہزار روپے سے تجاوز کرچکا ہے۔ یعنی اس میں کوئی ساڑھے چار گنا کا اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قرضوں کی شرح زیادہ ہونے کے باعث حکومت کو کئی محاذوں پر سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں محض معاشی ہی نہیں بلکہ سیاسی، بین الاقوامی اور حتیٰ کہ ملک کے اندر بھی حکومت کو اپنی خودمختاری پر سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
ماہر معاشیات اور استاد عبدالعظیم خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی آمدن اور اس کا جی ڈی پی کا حجم کم ہونے کی وجہ سے پاکستان کی قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت کم ہے۔ اسی طرح پاکستان کو لا محالہ طور پر ان ممالک سے سیاسی تعلقات کو زیادہ اہمیت دینی پڑتی ہے جو اسے زیادہ قرضے فراہم کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں چین، سعودی عرب اور اُن ممالک کی اہمیت زیادہ ہے جو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے ڈونرز اور کنٹریبیوٹرز ہیں۔
پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس قدر کیسے بڑھا؟
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کا قرضوں کا بوجھ جی ڈی پی کے مقابلے میں کم ہوا ہے اور یہ اب 65 فی صد سے کچھ اوپر ہے۔
ڈاکٹر عبدالعظیم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حالیہ معاشی تاریخ کے کئی پہلو یہ بتاتے ہیں کہ بیرونی قرضوں کی ادائیگی کیوں اس قدر مشکل رہی ہے اور یہ مستقبل میں بھی ایک چیلنج بنی رہے گی۔
انہوں نے بتایا کہ بیرونی قرض کئی سالوں سے عوامی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے استعمال نہیں ہوا بلکہ غیر ملکی قرضہ حکومتی اخراجات چلانے اور پچھلا قرض اتارنے پر ہی استعمال ہوا ہے۔
ڈاکٹر عبدالعظیم کے مطابق پاکستان کی برآمدات لگ بھگ 30 ارب ڈالر کے آس پاس منجمد ہو گئی ہے جس کی وجہ سے قرض ادا کرنے کی صلاحیت بھی کمزور پڑ گئی ہے۔
بیرونی قرضوں میں اضافے کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ غیر ملکی زرِمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی طرف سے فراہم کردہ فنڈز پر انحصار بھی بیرونی قرض اتارنے میں رکاوٹ ہے۔
ان کے بقول، پاکستان پر لاگو سود کی شرح میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی پاکستان کے لیے درد سر بنی ہوئی ہے۔
ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ پاکستان خطے میں بھارت کے بعد قرضوں پر بھاری سود ادا کرنے والا دوسرا بڑا ملک ہے اور اس پر قرضوں کا بوجھ ایک سال میں تین ارب ڈالر بڑھا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چین کے بعد پاکستان سب سے زیادہ خود عالمی بینک کا مقروض ہے اور یہ قرضہ پاکستان کے ذمے مجموعی قرضوں کا 18 فی صد بنتا ہے۔
پاکستان کے ذمے ایشیائی ترقیاتی بینک کا قرضہ 15 فی صد اور سعودی عرب کا قرضہ واجب الادا کُل قرضوں کے حجم کا سات فی صد ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان پر واجب الادا چین کے قرضوں میں کسی حد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اس کا کُل حجم 25 سے کم ہو کر 22 فی صد پر آگیا ہے۔
گزشتہ برس نومبر میں ‘ایڈ ڈیٹا’ کی سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان سال 2000 سے 2021 کے دوران دنیا میں چین سے مالی تعاون حاصل کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک تھا جس نے 70 ارب ڈالر سے زائد رقم حاصل کی اور اس میں 98 فی صد قرض شامل تھا جب کہ بقیہ دو فی صد رقم گرانٹس کی شکل میں فراہم کی گئی تھی۔
قرض کا بوجھ کم کرنے کے لیے حل کیا ہے؟
ماہرین کے مطابق غیر ملکی قرضوں کا حجم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ملک کو ‘ایکسپورٹ لیڈ گروتھ’ کی جانب راغب کیا جائے۔ غیر ملکی قرضوں اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کے ساتھ ملک کے اندر ایسی صنعتیں لگائی جائیں یا ایسے کاروبار کو فروغ دیا جائے جس کی بیرون ملک میں مانگ ہو۔
ملک میں صںعتوں کو فروغ اس وقت ممکن ہوگا جب انہیں گیس، بجلی، پانی اور انفراسٹرکچر کم قیمت پر دستیاب ہو اور نوجوان ہنر مند ہوں تاکہ وہ انڈسٹری میں کام کرسکیں۔
ڈاکٹر عبدالعظیم کے خیال میں قرضوں کے حجم کو پورا کرنے کے لیے ایکسپورٹ لیڈ گروتھ پالیسی اختیار کرنے سے مقامی سرمایہ کاروں کو پیسہ لگانے کا موقع ملے گا جس سے بیرونِ ملک پاکستانیوں اور پھر دیگر ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے میں بھی آسانیاں آئیں گی۔ تب ہی ملک میں حقیقی طور پر سرمایہ کاری ممکن ہوسکے گی۔
ان کے خیال میں قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے قرض دہندہ ممالک کی منتیں کرنا ہوں گی یعنی ان ممالک سے قرضوں کو رول اوور، اور ری پروفائلنگ کی درخواستیں کرنا ہوں گی اور ساتھ ہی ان ممالک کی خارجہ پالیسیوں کی حمایت پر مجبور ہونا پڑے گا۔
ان کے بقول، چین جیسا ملک جس کے پاکستان کے ساتھ سیاسی، دفاعی اور معاشی تعلقات سب سے گہرے ہیں، وہ بھی پاکستان کے قرضے ری اسٹرکچر کرنے کو تیار نہیں۔
قرض کے ری اسٹرکچنگ سے مراد قرضوں کی ادائیگی میں اس طرح کی تبدیلی لانا ہے جس سے قرضوں کے کُل حجم میں کوئی کمی واقع ہو۔ ڈیبٹ ری اسٹرکچرنگ کی درخواست عام طور پر وہ ممالک کرتے ہیں جو ڈیفالٹ کے خطرے سے دوچار ہوں۔