|
رواں سال مئی اور جون، پاکستان میں کام کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں اور شخصیات کے لیے بہترین رہے۔ وہ اس لحاظ سے کہ تقریباً 30 ماہ بعد انہیں پہلی بار بھاری سرمایہ پاکستان سے باہر منتقل کرنے کی اجازت مل پائی۔ مئی میں ایسی کمپنیوں اور شخصیات کی جانب سے 91 کروڑ اور جون میں بھی 41 کروڑ ڈالر سے زائد کی رقوم پاکستان سے باہر منتقل کی گئیں۔
لیکن اس سب کے باوجود پاکستانی روپیہ گزشتہ کئی ماہ سے قدرے مستحکم ہے۔ یہی نہیں بلکہ 25 جولائی کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں ایک ہفتے کے دوران 39 کروڑ70 لاکھ ڈالر کی بڑی کمی دیکھی گئی۔
اس کمی کے بعد یہ ذخائر 9 ارب 2 کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر سمیت دیگر ممالک کی کرنسیوں کے مقابلے میں کوئی خاص فرق نہیں دیکھا گیا۔
دوسری جانب پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ سال نومبر سے قدرے مستحکم ہی دیکھا جا رہا ہے جب کہ اس کے برعکس دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں ڈالر پچھلے کچھ عرصے میں مزید مضبوط ہوا ہے۔ تجزیہ کار استحکام کے اس غیر امکانی رجحان کے پیچھے مختلف وجوہات دیکھتے ہیں۔
جاری کھاتوں میں خسارہ کم؛ روپے کے استحکام کی بڑی وجہ
ایکسچینج مارکیٹ کے ماہر عبداللہ احمد کا کہنا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان کا جاری کھاتوں یعنی کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ محض 68 کروڑ 10 لاکھ ڈالر رہا جو گزشتہ مالی سال کے اختتام پر تین ارب 27 کروڑ ڈالر رہا تھا۔
یعنی ایک سال میں جاری کھاتوں کے خسارے میں 79 فی صد کی کمی آئی ہے۔ اس وجہ سے روپیہ کافی حد تک مستحکم نظر آ رہا ہے۔ تاہم درآمدات کا دباؤ بڑھنے پر روپے کی قدر کم ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کے خدشات موجود ہیں کہ آئندہ ماہ سے درآمدات بڑھنے سے روپیہ اپنا استحکام کھو سکتا ہے۔
عبداللہ احمد کا کہنا ہے کہ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں بھی استحکام رہا ہے۔ جون میں اختتام پذیر ہونے والے مالی سال میں پاکستان کی برآمدات میں نو فی صد کا بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے۔
یہ برآمدات (سامان اور سروسز دونوں کی ) 38 ارب 82 کروڑ ڈالر سے زائد ہو گئی ہیں جو گزشتہ سال 35 ارب 47 کروڑ ڈالر کی تھیں۔
ملک میں ڈالر کا ان فلو زیادہ ہونے کی وجہ سے ملک کے اندر قیمتیں مستحکم نظر آئیں اور مہنگائی میں بھی کمی رہی۔ گزشتہ سال اوسط مہنگائی 29 فی صد سے زیادہ تھی جو اس سال 23.4 فی صد ریکارڈ کی گئی۔ اس وجہ سے بھی روپیہ کافی حد تک مستحکم رہا۔
حکومت کے انتظامی اقدامات
انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکام ملک کی سیاسی صورتِ حال کے پیشِ نظر کرنسی کے استحکام کو کافی ترجیح دیتے نظر آرہے ہیں۔ اس لیے ایسے انتظامی اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جس سے روپیہ مستحکم رہے۔
ان میں ڈالر کی اسمگلنگ، حوالہ اور ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف کریک ڈاون کے علاوہ غیر ضروری درآمدات پر پابندی جیسے اقدامات بھی شامل ہیں۔
مستقبل کے خدشات کیا ہیں؟
ان اقدامات کے نتیجے کے طور پر روپیہ کئی ماہ سے مستحکم ہے لیکن دوسری جانب اب بھی کافی چیلنجز ہیں۔ اور اس استحکام کا مستقبل آئی ایم ایف پروگرام کے تحت رقم کے جلد اجرا اور دوست ممالک سے قرضوں کے رول اوور سے ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری کے بعد بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے نئے قرض کی توقع اور دوست ممالک سے قرضوں کے رول اوور کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔
حکومت کی جانب سے ملک کے اندر معاشی شرح نمو بڑھانے کی غرض سے درآمدات پر پابندی نرم کیے جانے کا بھی امکان ہے۔ جس سے نتیجتاً روپے کی قدر میں کمی آنے والے مہینوں میں کمی دیکھی جا سکتی ہے۔
تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی کی منظوری کا انحصار چین، متحدہ عرب امارات اور دیگر دوست ممالک کی جانب سے قرضوں کے ری شیڈولنگ کے لیے کیے جانے والے مذاکرات کی کامیابی پر ہے۔
ادھر عالمی ریٹنگ ایجنسی پوور اینڈ اسٹینڈرڈ نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے ملک کے جی ڈی پی کو جمود کا شکار رکھا ہے۔ مالی سال 2026 میں بھی فی کس جی ڈی پی 1700 امریکی ڈالر سے بھی کم ہی رہنے کا امکان ہے۔
ریٹنگ ایجنسی کے مطابق آئندہ دو سالوں تک پاکستان کا خالص قرضہ جی ڈی پی کے 71 فی صد تک بلند رہنے کا امکان ہے۔ لیکن قرض کے دباؤ میں اصل مسئلہ سود کا خرچ ہے۔ حکومت کے قرضوں کے بوجھ میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ایجنسی نے توقع ظاہر کی ہے کہ طویل عرصے سے بلند شرح سود اور روپے کی قدر میں کمی کے باعث یہ تناسب مسلسل بلند ہی رہے گا۔
اس سے قبل ایک اور نامور ریٹنگ ایجنسی ‘فچ’ نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا تھا کہ پاکستانی پالیسی سازوں کو روپے کو مستحکم کرنے میں توقع سے زیادہ کامیابی ملی ہے۔
اب ایسا لگتا ہے کہ کرنسی کی قدر میں بڑی گراوٹ پیچھے رہ گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستانی روپیہ سال 2024 کے بقیہ حصے میں کسی حد تک مزید کمزور ہو گا اور یہ اس وقت 278 روپے کے اردگرد موجود ہے اور یہاں سے فی امریکی ڈالر 290 روپے تک گر سکتا ہے۔
فچ کا کہنا تھا کہ حکومت ایسے انتظامی اقدامات برقرار رکھے گی جس سے ملک کے اندر روپے کی قدر کو برقرار رکھی جا سکے اور اس کے ذریعے ڈالر کی طلب کو کم رکھا جائے گا۔
کیا پاکستان رواں سال واجب الادا قرض ادا کرنے کی سکت رکھتا ہے؟
دوسری جانب، مرکزی بینک کے گورنر جمیل احمد نے کہا کہ توقع ہے کہ پاکستان سے رواں مالی سال میں تمام بیرونی ادائیگیوں کا آرام سے اور بروقت انتظام کیا جائے گا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ یہ قابل انتظام کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور بہتر تعداد میں امریکی ڈالرز کی آمد کی وجہ سے ہوا ہے۔
گورنر نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستان کو رواں مالی سال میں 26.2 ارب ڈالر کی بیرونی ادائیگیاں کرنی ہیں جن میں 22 بلین ڈالر کا اصل قرضہ اور چار ارب ڈالر کا سود شامل ہے۔
تاہم پاکستان کو اس بات کی توقع ہے کہ قرض دہندہ ممالک سے اسے 16 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور مل جائیں گے اور ایسا ہونے سے پاکستانی کرنسی مستحکم رہے گی جس سے ملک کے اندر مہنگائی کو کنٹرول رکھنے میں مدد ملے گی۔