|
ویب ڈیسک _ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات میں مزید 13 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ شیعہ اور سنی قبائل کے درمیان حالیہ چند روز کے دوران جھڑپوں میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 124 ہو گئی ہے۔
خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ کے مطابق ضلع کرم کے سرکاری عہدیدار نے بتایا ہے کہ گزشتہ دو روز کے دوران جھڑپوں میں مزید 13 اموات ہوئی ہیں اور دو ہفتوں کے دوران ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 124 ہو گئی ہے۔
عہدیدار نے بتایا کہ تازہ ترین جھڑپوں میں ہلاک ہونے والوں میں دو کا تعلق سنی اور 11 کا شیعہ قبیلے سے ہے۔ جھڑپوں کے نتیجے میں 50 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے ہیں اور یہ جھڑپیں ہفتے کی صبح تک جاری تھیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے نذر الاسلام کے مطابق مقامی عہدیداروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 120 سے زائد تجاوز کر گئی ہیں جب کہ پولیس کا کہنا ہے کہ کوئی بھی فریق بات سننے کو تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے صورتِ حال پر قابو پانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
‘اے ایف پی’ کے مطابق سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ فریقین کے درمیان اعتماد کی کمی ہے اور کوئی بھی قبیلہ حکومت کی جانب سے نافذ کردہ جنگ بندی پر عمل درآمد کے لیے رضا مند دکھائی نہیں دیتا۔
صوبائی حکومت نے گزشتہ ہفتے فریقین کے درمیان سات روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔
‘اے ایف پی’ کے مطابق پشاور میں موجود ایک سینئر سیکیورٹی عہدیدار کا بھی کہنا ہے کہ فرقہ ورانہ فسادات میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 124 ہو گئی ہے اور ہلاکتوں میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
سیکیورٹی عہدیدار نے مزید کہا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ اقدامات کا نفاذ نہیں ہوا ہے۔
دوسری جانب وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے کرم میں جاری فسادات پر ہفتے کو کوہاٹ میں منعقدہ ایک عوامی نمائندہ اجتماع میں شرکت کی ہے۔ اُن کے ہمراہ صوبائی مشیر بیرسٹر سیف، آفتاب عالم، شہریار آفریدی کے علاوہ انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا پولیس، چیف سیکریٹری، کمشنر اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے۔
بیرسٹر سیف کے مطابق فریقین کے درمیان لڑائی کی بندش کے بعد مسئلے کے مستقل حل کی طرف پیش رفت کیا جائے گا جب کہ پاڑا چنار مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں جا رہے ہیں۔
ضلع کرم پاکستان کا واحد قبائلی خطہ ہے جس کی تین اطراف سے سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں جب کہ ایک طرف سے یہ خیبرپختونخوا سے منسلک ہے۔
اپر کرم میں اہل تشیعہ کمیونٹی کی اکثریت ہے اور لوئر کرم میں سنی قبائل آباد ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے کرم میں زمین کے تنازع کے باعث فرقہ وارانہ کشیدگی کا مرکز بنتا رہا ہے۔
فرقہ ورانہ کشیدگی کی وجہ سے ضلعے کو باقی اضلاع سے ملانے والی شاہراہ پر وقتاً فوقتاً کبھی اہل تشیعہ تو کبھی سنی قبائل کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس شاہراہ پر حالیہ عرصے کے دوران گاڑیوں کو قافلوں کی صورت میں گزارا جا رہا تھا۔
(اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے لی گئی ہیں۔)