نائجیرین پروفیسر نے ویلڈنگ کی دکان کھول لی
ابوجا (ویب ڈیسک) نائجیریا میں ویلڈنگ کو چھوٹا کام سمجھا جاتاہے،پروفیسر نے اپنی ویلڈنگ کی ورک شاپ کھول کراپنےساتھیوں کو بھی حیران کردیا،پروفیسر ابو بلال نے بتایاکہ ویلڈنگ کی وجہ سے وہ زیادہ خود کفیل ہیں، اس کے بدولت وہ اچھی گاڑی خرید سکے اور وہ بھی مرسیڈیز گاڑی۔
آج نیوز کے مطابق 50 سالہ کبیر ابو بلال نے بی بی سی کو بتایا کہ پروفیسر ہونے کے باوجود انہیں بطور ویلڈر کام کرنے میں کوئی شرمندگی نہیں، وہ ویلڈنگ سے زیادہ پیسے کمالیتے ہیں، وہ 18 سالوں سے نائجیریا کے شہر زاریا کی یونیورسٹی میں شعبہ انجنیئرنگ میں پڑھاتے ہیں،انہوں نے الیکٹریکل انجنیئرنگ اورطبیعات پرمتعدد کتابیں بھی لکھی ہیں۔
پروفیسر کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی انہیں چیزوں کو کھول کر واپس جوڑنے کا شوق تھا،جس کی وجہ سے وہ اس کیریئر میں آئے،بدقسمتی سے مجھے انجنیئرنگ کے شعبےمیں آکر پتا چلا کہ اس میں تھیوری زیادہ ہے اور مجھے اپنے آپ کو اظہار کرنے کے لیے جگہ چاہیے تھی۔نائجیریا کی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے کافی عرصے سے کم تنخواہوں کی وجہ سے مشکل سے گزارا کر رہے ہیں، زیادہ تر کی مہینے کی تنخواہ 390 سے 555 ڈالر ہوتی ہے،اس میں اضافے کے لیے حکومت کے خلاف لمبے عرصے پرمحیط قانونی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔
پروفیسر ابو بلال نے بتایاکہ 2002 میں یونیورسٹی کے لیکچررز نے 8 ماہ تک ہڑتال کی اور ہمیں اس دوران تنخواہیں نہیں ملیں، میرے پاس اس کام کی وجہ سے ہمیشہ پیسے ہوتے تھے ،کچھ ساتھی میرے پاس مدد کے لیے آئے تھے۔ان کی خواہش ہے کہ لوگ ان سے متاثر ہو کر اس طرح کا کام شروع کریں۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو بالحضوص گریجوایٹس کو روز گار کے بارے میں اپنا ذہن کھلا رکھنا چاہیے،تعلیم کو ایسے کام کرنے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، میں حیران ہوتا ہوں کہ ڈگری والے لوگوں کو یہ کام توہین آمیز لگتا ہے۔
سٹوٹرن کی نائیجیریا گریجویٹ رپورٹ کے مطابق، افریقہ کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک نائجیریا میں 40 فیصد سے زیادہ گریجویٹس نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔