|
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر ڈرونز اور میزائلوں سے ایران کے غیر معمولی حملے کے بعد یہ امکان کم ہے کہ امریکہ سزا دینے کے لیے ایران سے تیل کی برآمدات پر بڑے پیمانے کی پابندیاں لگا دے گا۔ اس کی وجہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے اور چین کی ناراضگی کا خدشہ ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ یہ نہیں چاہے گی کہ وہ ایک ایسے موقع پر ایرانی تیل پر پابندیاں لگا دیں، جب سال کے آخر میں صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ پٹرول پمپوں پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ووٹروں کو متاثر کر سکتا ہے۔
چین کے ایک جاسوس غبارے کو امریکہ کی جانب سے گرائے جانے کے بعد چین اور امریکہ کے تعلقات بہت خراب ہو گئے تھے جسے بائیڈن انتظامیہ نے بڑی مشکل سے بہتر بنایا ہے۔ وہ ان تعلقات کو دوبارہ بگاڑ کی طرف لے جانا نہیں چاہیں گے۔
چین ایران کے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اپنی ضرورت کا تقریباً 10 فی صد تیل ایران سے حاصل کرتا ہے۔ جب کہ ایرانی تیل کی 90 فی صد برآمدات کی منزل چین ہوتی ہے۔
اس تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ پر اس دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے کے اقدام پر ایران کو سخت سزا دیں۔
اتوار کے روز ٹیلی وژن چینل فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے ریپبلکن لیڈر سٹیو سکولیز نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے ایران کے لیے تیل بیچنا آسان بنا دیا ہے جس سے آمدنی پیدا ہو رہی ہے جو دہشت گردی کی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔
واشنگٹن کئی مہینوں سے یہ کہہ رہا ہے کہ اس کے بنیادی اہداف میں سے ایک فلسطینی گروپ حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ تنازع کو ایک وسیع علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکنا ہے جس کے لیے تہران کو اس سے دور رکھنا ضروری ہے۔
امریکی ایوان نے پیر کو دیر گئے ایران چین انرجی سینگشنز ایکٹ نامی ایک بل کی بھاری اکثریت سے منظوری دی جس کے تحت ان سالانہ رپورٹس کی بنیاد پر کہ چین کے مالیاتی اداروں نے ایرانی تیل کی ادائیگیوں میں حصہ لیا ہے، ایران پر پابندیوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اس بل کو ابھی سینیٹ سے منظوری حاصل کرنا ہے جہاں ڈیموکریٹس کی اکثریت کی وجہ سے اس بل کا پاس ہونا مشکل دکھائی دیتا ہے جو تیل کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے محتاط ہیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی معاہدے سے الگ ہونے کے بعد ایرانی تیل پر امریکی پابندیاں بحال کر دیں تھیں۔ ان کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے چین، متحدہ عرب امارات اور دیگر جگہوں پر ان پابندیوں کے تحت ان کمپنیوں کے خلاف کارروائیاں کیں جو چوری چھپے ایرانی تیل کی خرید و فروخت میں ملوث تھیں۔
تاہم ان اقدامات کے باوجود، انرجی گروپ ریپڈین کا تخمینہ ہے کہ ایران کی تیل کی برآمدات 16 لاکھ سے 18 لاکھ بیرل روزانہ تک پہنچ چکی ہیں۔یہ تیل کی تقریباً وہی مقدار ہے جو ایران پابندیاں لگنے سے پہلے برآمد کرتا تھا۔ پابندیوں سے پہلے ایران کی تیل کی برامدات 20 لاکھ بیرل یومیہ کے لگ بھگ تھیں۔
ایک تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل میں پابندیوں اور منی لانڈرنگ کی روک تھام سے متعلق ایک ماہر کمبرلی ڈونوویں کہتی ہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں ایرانی تیل پر پابندیوں پر سختی سے عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ جب کہ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے ایران پر سے کوئی پابندی نہیں ہٹائی اور اس پر دباؤ میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں چین جانے و الا تیل، ایران سے براہ راست نہیں جاتا، بلکہ یہ تیل ملائیشیا یا مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ذریعے پرانے اور نامعلوم آئل ٹینکروں کے ذریعے لے جایا جاتا ہے۔ آئل ٹینکر بحری سفر کے دوران اپنے الیکٹرانک آلات بند رکھتے ہیں جس سے یہ معلوم نہیں ہو پاتا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
اس صورت حال پر نظر رکھنے والے ماہرین کا اندازہ ہے کہ گزشتہ سال پانچ کروڑ 56 لاکھ ٹن ایرانی تیل چوری چھپے چین پہنچایا گیا۔ یہ برآمد تقریباً 11 لاکھ بیرل روزانہ کے مساوی ہے۔ دوسرے لفظوں میں پچھلے سال چین کو ایرانی تیل کی کل برآمدات کا 90 فی صد حصہ ملا۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر امریکہ ایرانی تیل کی برآمد گھٹانا چاہتا ہے تو اسے چین کے خلاف سخت اور بامقصد اقدامات کرنے پڑیں گے۔
لیکن سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار جون الٹرمین کہتے ہیں کہ پابندیاں لگانے کے لیے واشنگٹن کی کچھ حدود ہیں اور یہ کہ چوری کرنے والے نئے راستے ڈھونڈنے کے ماہر ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے نہیں لگتا کہ وائٹ ہاؤس کے موجودہ عہدے دار یا مستقبل کے عہدے دار ایرانی تیل کی چوری چھپے برآمد کو مکمل طور پر روکنے کے قابل ہو سکیں گے۔
(اس آرٹیکل کے لیے کچھ معلومات رائٹرز سے لی گئیں ہیں)